وہ مِرا ہو نہ سکا تو میں برا کیوں مانوں؟
اس کو حق ہے وہ جسے چاہے اُسے پیار کرے
کل تلک میں نے سُنے جس کے دھڑکتے نغمے
اور کوئی بھی تو اس دل میں سما سکتا ہے
ایک میں ہی تو نہیں پیار کا حق دار یہاں
وہ کسی اور کو بھی اپنا بنا سکتا ہے
کیوں فقط مجھ سے محبت کا وہ اقرار کرے
اس کو حق ہے وہ جسے چاہے اسے پیار کرے
پیار کہتے ہیں جسے وہ ہے دلوں کا سودا
کسی دھڑکن پہ کسی دل پہ کوئی قید نہیں
ہم سفر اپنا بنا لے وہ جسے بھی چاہے
سوچ آزاد ہے منزل پہ کوئی قید نہیں
اس کے رستے میں کھڑی کیوں کوئی دیوار کرے
اس کو حق ہے وہ جسے چاہے اُسے پیار کرے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment