جنگل میں آگ کی طرح پھیلا نہیں دیا گیا
تم کو تمہارے عشق کا طعنہ نہیں دیا گیا
جتنا بھرا ہوا تھا وہ اتنا ہی پرسکون تھا
دریا کو آبشار کا لہجہ نہیں دیا گیا
جاتے ہوئے فقیر نے کتنی دعائیں دیں ہمیں
ہوٹل کی انتظامیہ کا شکر ادا کرو میاں
اس رات تم کو ہجر کا کمرہ نہیں دیا گیا
اس کی ہنسی کے راستے اپنی خوشی کے واسطے
کھلتا گلاب توڑ کر تحفہ نہیں دیا گیا
اس کارگہِ زیست میں اپنا بھی تھوڑا ہاتھ ہے
ہم کو ہمارے کام کا حصہ نہیں دیا گیا
معید مرزا
No comments:
Post a Comment