اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں
قائم کِیا ہے میں نے فنا کے وجود کو
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں
نا آشنا ہیں رتبۂ دیوانگی سے دوست
ہنسنے کا اعتبار، نہ رونے کا اعتبار
کیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں
یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں
شاید اسیرِ دامِ بلا ہو گیا ہوں میں
اٹھا ہوں اک جہانِ خموشی لیے ہوئے
ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment