Tuesday 31 December 2019

اے دوست مٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں ​

اے دوست مِٹ گیا ہوں فنا ہو گیا ہوں میں ​
اس دردِ دوستی کی دوا ہو گیا ہوں میں ​
قائم کِیا ہے میں نے فنا کے وجود کو ​
دنیا سمجھ رہی ہے فنا ہو گیا ہوں میں ​
نا آشنا ہیں رتبۂ دیوانگی سے دوست ​
کمبخت جانتے نہیں، کیا ہو گیا ہوں میں​
ہنسنے کا اعتبار، نہ رونے کا اعتبار​
کیا زندگی ہے جس پہ فدا ہو گیا ہوں میں ​​
یہ زندگی فریبِ مسلسل نہ ہو کہیں​
شاید اسیرِ دامِ بلا ہو گیا ہوں میں ​
اٹھا ہوں اک جہانِ خموشی لیے ہوئے​
ٹوٹے ہوئے دلوں کی صدا ہو گیا ہوں میں ​

حفیظ جالندھری

No comments:

Post a Comment