Tuesday 24 December 2019

زندگی کا پیمبر نہ تھا مقبرہ

زندگی کا پیمبر نہ تھا مقبرہ
موت کے ساتھ چلتا رہا مقبرہ
گھر گِرے تو سبھی لوگ چپ چاپ تھے
کتنے طوفاں اٹھے جب گِرا مقبرہ
میری گستاخیاں حد سے بڑھتی گئیں
تیرے افکار کو لکھ دیا مقبرہ
دوستوں کا بھلا ہو کہ جن کے سبب
میرا گھر نہ بنا، بن گیا مقبرہ
بے گھروں کے مقدر پہ ہنستا رہا
ایک مردے پہ سایہ کشا مقبرہ
مفلسوں کے لہو سے چراغاں ہوا
رات بھر رقص کرتا رہا مقبرہ

ناصر ملک

No comments:

Post a Comment