زندگی کا پیمبر نہ تھا مقبرہ
موت کے ساتھ چلتا رہا مقبرہ
گھر گِرے تو سبھی لوگ چپ چاپ تھے
کتنے طوفاں اٹھے جب گِرا مقبرہ
میری گستاخیاں حد سے بڑھتی گئیں
دوستوں کا بھلا ہو کہ جن کے سبب
میرا گھر نہ بنا، بن گیا مقبرہ
بے گھروں کے مقدر پہ ہنستا رہا
ایک مردے پہ سایہ کشا مقبرہ
مفلسوں کے لہو سے چراغاں ہوا
رات بھر رقص کرتا رہا مقبرہ
ناصر ملک
No comments:
Post a Comment