Thursday 26 December 2019

خوشبو ہیں تو ہر دور کو مہکائیں گے ہم لوگ

خوشبو ہیں تو ہر دور کو مہکائیں گے ہم لوگ
مٹی ہیں تو پل بھر میں بکھر جائیں گے ہم لوگ
مہلت ہے تو جی بھر کے کرو سیر یہاں کی
پھر ایسا خرابہ بھی کہاں پائیں گے ہم لوگ
بیٹھو کہ ابھی ہے یہ گھنی چھاؤں، میسر
ڈھلتا ہوا سایہ ہیں گزر جائیں گے ہم لوگ
اے سنگ زنو! کانچ کا پیکر ہمیں جانو
اک بار جو بکھرے تو نہ ہاتھ آئیں گے ہم لوگ
کیا ہم سے بچو گے کہ جدھر جائیں گی نظریں
اس آئینہ خانہ میں جھلک جائیں گے ہم لوگ
سیکھا تو بہت کچھ ہے سرِ مکتبِ دنیا
اک حرفِ محبت ہے سو دہرائیں گے ہم لوگ
ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ

رضی اختر شوق

No comments:

Post a Comment