خوشبو ہیں تو ہر دور کو مہکائیں گے ہم لوگ
مٹی ہیں تو پل بھر میں بکھر جائیں گے ہم لوگ
مہلت ہے تو جی بھر کے کرو سیر یہاں کی
پھر ایسا خرابہ بھی کہاں پائیں گے ہم لوگ
بیٹھو کہ ابھی ہے یہ گھنی چھاؤں، میسر
اے سنگ زنو! کانچ کا پیکر ہمیں جانو
اک بار جو بکھرے تو نہ ہاتھ آئیں گے ہم لوگ
کیا ہم سے بچو گے کہ جدھر جائیں گی نظریں
اس آئینہ خانہ میں جھلک جائیں گے ہم لوگ
سیکھا تو بہت کچھ ہے سرِ مکتبِ دنیا
اک حرفِ محبت ہے سو دہرائیں گے ہم لوگ
ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ
رضی اختر شوق
No comments:
Post a Comment