نہ فاصلے کوئی رکھنا، نہ قربتیں رکھنا
بس اب بقدرِ غزل اس سے نسبتیں رکھنا
یہ کس تعلقِ خاطر کا دے رہا ہے سراغ
کبھی کبھی تِرا مجھ سے شکایتیں رکھنا
فضائے شہر میں اب کے بڑی کدورت ہے
ہم اہلِ فن کو بھی گمنامیاں تھیں راس بہت
ہوا ہے باعثِ رسوائی شہرتیں رکھنا
میں اپنے سچ کو چھپاؤں تو روح شور مچائے
عذاب ہو گیا میرا سماعتیں رکھنا
قصیدہ خوانی کرو اور موج اڑاؤ کہ شوق
تمام کارِ زیاں ہے صداقتیں رکھنا
رضی اختر شوق
No comments:
Post a Comment