Sunday 1 December 2019

صبح خود بتائے گی تیرگی کہاں جائے

صبح خود بتائے گی تیرگی کہاں جائے 
یہ چراغ کی جھوٹی روشنی کہاں جائے 
جو نشیب آئے گا، راستہ دکھائے گا 
موڑ خود بتائے گا، آدمی کہاں جائے 
بڑھ کے دو قدم تُو ہی اس کی پیٹھ ہلکی کر 
یہ تھکا مسافر اے رہزنی! کہاں جائے
ہاو ہو کی دنیا میں، ما و تو کی دنیا میں 
رنگ و بو کی دنیا میں سادگی کہاں جائے
بے تعلقی مسلک ہو چکا ہے دنیا کا 
دوستی کہاں جائے، دشمنی کہاں جائے 
اب تو دھوپ آ پہنچی جھاڑیوں کے اندر بھی 
اب پناہ لینے کو تیرگی کہاں جائے
کارواں نے چولہوں میں جھونک دی گھنی شاخیں 
اب کہیں نہیں سایہ، خستگی کہاں جائے 
زخم دل تو کیا دو گے، داغِ سجدہ ہی دے دو 
اب تمہاری چوکھٹ سے مظہریؔ کہاں جائے

جمیل مظہری

No comments:

Post a Comment