صبح خود بتائے گی تیرگی کہاں جائے
یہ چراغ کی جھوٹی روشنی کہاں جائے
جو نشیب آئے گا، راستہ دکھائے گا
موڑ خود بتائے گا، آدمی کہاں جائے
بڑھ کے دو قدم تُو ہی اس کی پیٹھ ہلکی کر
ہاو ہو کی دنیا میں، ما و تو کی دنیا میں
رنگ و بو کی دنیا میں سادگی کہاں جائے
بے تعلقی مسلک ہو چکا ہے دنیا کا
دوستی کہاں جائے، دشمنی کہاں جائے
اب تو دھوپ آ پہنچی جھاڑیوں کے اندر بھی
اب پناہ لینے کو تیرگی کہاں جائے
کارواں نے چولہوں میں جھونک دی گھنی شاخیں
اب کہیں نہیں سایہ، خستگی کہاں جائے
زخم دل تو کیا دو گے، داغِ سجدہ ہی دے دو
اب تمہاری چوکھٹ سے مظہریؔ کہاں جائے
جمیل مظہری
No comments:
Post a Comment