Thursday, 12 December 2019

رابطے بھی رکھتا ہوں راستے بھی رکھتا ہوں

رابطے بھی رکھتا ہوں راستے بھی رکھتا ہوں
لوگوں سے بھی ملتا ہوں فاصلے بھی رکھتا ہوں
غم نہیں ہوں کرتا اب، چھوڑ جانے والوں کا
توڑ کر تعلق میں، در کھلے بھی رکھتا ہوں
موسموں کی گردش سے میں ہوں اب نکل آیا
یاد پر خزاؤں کے حادثے بھی رکھتا ہوں
خود کو ہے اگر بدلا وقت کے مطابق تو
وقت کو بدلنے کے حوصلے بھی رکھتا ہوں
بھر کے بھول جاتے ہیں گھاؤ فکر ہے مجھ کو
زخم کچھ پرانے سو ان سِلے بھی رکھتا ہوں
گو کسی بھی منزل کی اب نہیں طلب مجھ کو
ہر گھڑی میں پیروں میں، آبلے بھی رکھتا ہوں
مانتا ہوں ابرک میں، بات یار لوگوں کی
سوچ کے مگر اپنے، زاویے بھی رکھتا ہوں

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment