رابطے بھی رکھتا ہوں راستے بھی رکھتا ہوں
لوگوں سے بھی ملتا ہوں فاصلے بھی رکھتا ہوں
غم نہیں ہوں کرتا اب، چھوڑ جانے والوں کا
توڑ کر تعلق میں، در کھلے بھی رکھتا ہوں
موسموں کی گردش سے میں ہوں اب نکل آیا
خود کو ہے اگر بدلا وقت کے مطابق تو
وقت کو بدلنے کے حوصلے بھی رکھتا ہوں
بھر کے بھول جاتے ہیں گھاؤ فکر ہے مجھ کو
زخم کچھ پرانے سو ان سِلے بھی رکھتا ہوں
گو کسی بھی منزل کی اب نہیں طلب مجھ کو
ہر گھڑی میں پیروں میں، آبلے بھی رکھتا ہوں
مانتا ہوں ابرک میں، بات یار لوگوں کی
سوچ کے مگر اپنے، زاویے بھی رکھتا ہوں
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment