آندھیوں میں اک دِیا🪔 جلتا ہوا رہ جائے گا
میں گزر جاؤں گا میرا نقش پا رہ جائے گا
خواہشوں کے سب پرندے شور سے اڑ جائیں گے
تُو کھڑا خاموش یونہی دیکھتا رہ جائے گا
وار کر سکتا تو ہوں میں اپنے دشمن پر، مگر
میں کسی پرچھائیں کے پیچھے نکل جاؤں گا جب
تُو گلی کوچوں میں مجھ کو ڈھونڈتا رہ جائے گا
حرف جب مٹنے لگیں تم دیکھنا اوراق پر
خونِ دل سے جو لکھا ہو گا، لکھا رہ جائے گا
بدگماں ہو کر بچھڑ جانے کا اس کے غم نہ کر
اب تو مِل کر بھی دلوں میں فاصلہ رہ جائے گا
ڈوب کر ابھروں گا دریا پار میں عارف شفیق
مجمعِ احباب ساحل پر کھڑا رہ جائے گا
عارف شفیق
No comments:
Post a Comment