عرضِ ہنر بھی وجہِ شکایات ہو گئی
چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی
دُشنام کا جواب نہ سُوجھا بجُز سلام
ظاہر مِرے کلام کی اوقات ہو گئی
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
یا ضربتِ خلیل سے بت خانہ چیخ اٹھا
یا پتھروں کو معرفتِ ذات ہو گئی
یارانِ بے بساط کہ ہر بازئ حیات
کھیلے بغیر ہار گئے، مات ہو گئی
بے رزم دن گزار لیا رتجگا مناؤ
اے اہل بزم! جاگ اٹھو، رات ہو گئی
نکلے جو میکدے سے تو مسجد تھا ہر مقام
ہر گام پر تلافئ مافات ہو گئی
حدِ عمل میں تھی تو عمل تھی یہی شراب
ردِ عمل بنی تو مکافات ہو گئی
اب شکر نا قبول ہے، شکوہ فضول ہے
جیسے بھی ہو گئی بسر اوقات ہو گئی
وہ خوش نصیب تم سے ملاقات کیوں کرے
دربان ہی سے جس کی مدارات ہو گئی
ہر ایک رہنما سے بچھڑنا پڑا مجھے
ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی گھات ہو گئی
یاروں کی برہمی پہ ہنسی آ گئی حفیظ
یہ مجھ سے ایک اور بری بات ہو گئی
حفیظ جالندھری
No comments:
Post a Comment