نہ شوقِ وصل نہ رنجِ فراق رکھتے ہیں
مگر، یہ لوگ تِرا اشتیاق رکھتے ہیں
یہ ہم جو تجھ پہ ہیں نازاں تو اس سبب سے کہ ہم
زمانے والوں سے بہتر مذاق رکھتے ہیں
ہم اہلِ دل سے کوئی کیوں ملے کہ ہم سے فقیر
جمالِ یار فقط چشم و لب کی بات نہیں
سو ہم خیالِ سیاق و سباق رکھتے ہیں
مثالِ شیشۂ، خالی کتابِ عقل کو بھی
ہم اہلِ میکدہ بالائے طاق رکھتے ہیں
شیوخِ شہر سے کیا بحث جو گِرہ میں فقط
دو حرفِ عقد و سہ حرفِ طلاق رکھتے ہیں
فرازؔ خوش ہو کہ تجھ سے خفا ہیں فتوہ فروش
بھلے سے یہ بھی کہیں اتفاق رکھتے ہیں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment