Monday, 30 December 2019

کچھ ایسے ہیں جو زندگی کو مہ و سال سے ناپتے ہیں

 اپاہج گاڑی کا آدمی


کچھ ایسے ہیں جو زندگی کو مہ و سال سے ناپتے ہیں

گوشت سے ،ساگ سے،دال سے ناپتے ہیں

خد و خال سے، گیسوؤں کی مہک، چال سے ناپتے ہیں

صعوبت سے، جنجال سے ناپتے ہیں

یا اپنے اعمال سے ناپتے ہیں

مگر ہم اسے عزمِ پامال سے ناپتے ہیں

ہم بھی کیوں نہ خدا کی طرح یوں ہی چپ سادھ لیں

پیڑ پودوں کی مانند جیتے رہیں

ذبح ہوتے رہیں

وہ دعائیں جو بارود کی بو میں بس کر

بھٹکتی ہوئی زیرِ عرش بریں پھر رہی ہیں

انہیں بھول جائیں

زندگی کو خدا کی عطا جان کر ذہن ماؤف کر لیں

یاوہ گوئی میں یا ذہنی ہذیان میں خود کو مصروف کر لیں

ان میں مل جائیں جو زندگی کو

گوشت سے، ساگ سے، دال سے ناپتے ہیں

مہ و سال سے ناپتے ہیں

اپنا ہی خون پینے لگے ہیں

چاک دامانیاں غم سے سینے لگے ہیں


اختر الایمان

No comments:

Post a Comment