Monday 30 December 2019

جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب تو وہ بات لکھ

جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب تُو وہ بات لکھ
اتنی اندھیری تھی نہ کبھی پہلے رات لکھ
جن سے قصیدے لکھے تھے وہ پھینک دے قلم
پھر خونِ دل سے سچے قلم کی صفات لکھ
جو روزناموں میں کہیں پاتی نہیں جگہ
جو روز ہر جگہ کی ہے، وہ واردات لکھ
جو واقعات ہو چکے ان کا تو ذکر ہے
لیکن جو ہونے چاہییں وہ واقعات لکھ
اس باغ میں جو دیکھنی ہے تجھ کو پھر بہار
تو ڈال ڈال دیکھ سدا تُو پات پات لکھ
جتنے بھی تنگ دائرے ہیں سارے توڑ دے
تُو آ کھلی فضاؤں میں اب کائنات لکھ

جاوید اختر

No comments:

Post a Comment