جو بات کہتے ڈرتے ہیں سب تُو وہ بات لکھ
اتنی اندھیری تھی نہ کبھی پہلے رات لکھ
جن سے قصیدے لکھے تھے وہ پھینک دے قلم
پھر خونِ دل سے سچے قلم کی صفات لکھ
جو روزناموں میں کہیں پاتی نہیں جگہ
جو واقعات ہو چکے ان کا تو ذکر ہے
لیکن جو ہونے چاہییں وہ واقعات لکھ
اس باغ میں جو دیکھنی ہے تجھ کو پھر بہار
تو ڈال ڈال دیکھ سدا تُو پات پات لکھ
جتنے بھی تنگ دائرے ہیں سارے توڑ دے
تُو آ کھلی فضاؤں میں اب کائنات لکھ
جاوید اختر
No comments:
Post a Comment