موچی ہی ہوں
شبدوں کے اک چوک میں بیٹھا
کیفیت کی دری بچھائے
پھٹے پرانے جذبے گانٹھتا رہتا ہوں
جب آنسو میلے ہو جائیں
اب وہ جذبے ہوں یا جوتے
سینا تو سینا ہوتا ہے
جوتوں کے سلنے میں بھی محنت ہوتی ہے
لیکن پھر بھی
جذبوں کے سینے میں وقت بہت لگتا ہے
پھٹے ہوئے جذبوں میں ٹانکا بھرتے بھرتے
دھیان ذرا سا بھی ہٹ جائے
ہاتھ نہیں زخمی ہوتا ہے
دل ہوتا ہے
دل کے زخم ہمیشہ گہرے ہوتے ہیں
زخم کو گہرا ہونا بھی تو چاہیۓ ہے
گہرا زخم ہی گہری نظم عطا کرتا ہے
اور یہ نظمیں
کہیں کہیں سے کھردری تو ہو سکتی ہیں
لیکن سچ کا ٹانکا پورا اور پکا ہے
چھو کر دیکھو
یہ اک موچی کی نظمیں ہیں
موچی ہی ہوں
شبدوں کے اک چوک میں بیٹھا
علی زریون
No comments:
Post a Comment