تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں
یہاں نہ کوئی ہے اپنا نہ ہم کسی کے ہیں
نہ عشق ہی کے اثر ہیں نہ دشمنی کے ہیں
کہ سارے زخم مِرے دل پہ دوستی کے ہیں
چراغ، اگرچہ نمائندے روشنی کے ہیں
تمہاری تیز روی دے گی کیا سوائے غبار
کہ نقشِ پا بھی نتیجے سُبک روی کے ہیں
شکوک کیا ہیں مِرے دوست! آگہی کا بلوغ
یقین کیا ہے، گھروندے کچھ آگہی کے ہیں
جمیلؔ!! اپنا سخن ان پہ رائیگاں نہ کرو
یہ مولوی کی سنیں گے یہ مولوی کے ہیں
جمیل مظہری
No comments:
Post a Comment