Sunday 1 December 2019

تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں

تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں 
یہاں نہ کوئی ہے اپنا نہ ہم کسی کے ہیں 
نہ عشق ہی کے اثر ہیں نہ دشمنی کے ہیں 
کہ سارے زخم مِرے دل پہ دوستی کے ہیں 
چراغ، اگرچہ نمائندے روشنی کے ہیں 
مگر یہ ہے کہ یہ آثار تیرگی کے ہیں 
تمہاری تیز روی دے گی کیا سوائے غبار 
کہ نقشِ پا بھی نتیجے سُبک روی کے ہیں 
شکوک کیا ہیں مِرے دوست! آگہی کا بلوغ 
یقین کیا ہے، گھروندے کچھ آگہی کے ہیں 
جمیلؔ!! اپنا سخن ان پہ رائیگاں نہ کرو 
یہ مولوی کی سنیں گے یہ مولوی کے ہیں 


جمیل مظہری

No comments:

Post a Comment