سمجھوتہ
آؤ ہم اس عشق کا کوئی نام رکھیں
کچھ سپنے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو
صرف کھلی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے
اور کچھ بندھن ایسے بھی تو ہوتے ہیں
جن کو بس محسوس کیا جا سکتا ہے
پھر بھی اس پر ویرانے تو بستے ہیں
دل کی کتنی خواہشیں بھی تو ایک ساتھ رہ سکتی ہیں
اک گھر میں دو کمرے بھی تو ہو سکتے ہیں
اک کمرے کے دو حصے بھی تو ہو سکتے ہیں
کچھ ناممکن، ممکن بھی تو ہو سکتا ہے
جیون سے سمجھوتہ بھی تو ہو سکتا ہے
ندیم بھابھہ
No comments:
Post a Comment