سر یہ ہر حال جھکا، ہم نے قناعت کی تھی
اک تِری بار ہی بس رب سے شکایت کی تھی
اس قدر سخت سزا بھی تو نہیں بنتی تھی
ہم نے بچپن سے نکلنے کی شرارت کی تھی
ہوش والوں کی نہ باتوں میں ہمی آئے کبھی
بے وفاؤں سے وفا خبط ہے لا حاصل سا
ہمیں معلوم تھا پھر بھی یہ حماقت کی تھی
نفع نقصان کی باتیں نہیں جچتی ہم کو
ہم نے کب یار تِرے ساتھ تجارت کی تھی
مبتلا تازہ ہے تو، خوش ہے محبت سے تو سن
اس نے آغاز میں ہم پر بھی عنایت کی تھی
کیوں زبانوں پہ فقط نام تِرا ہے ابرک
تم سے پہلے بھی تو کتنوں نے بغاوت کی تھی
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment