دل کیا بجھا دھوئیں میں اٹا ہے جہان بھی
سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی
سوچوں کو بھی فضا نے اپاہج بنا دیا
بیساکھیاں لگائے ہوئے ہے اڑان بھی
آواز کے چراغ جلا تو دئیے، مگر
صدیوں سے پھر رہا ہوں میں کس کی تلاش میں
رس گھولنے لگی ہے بدن میں تکان بھی
دو نام تو نہیں ہیں کہں اک وجود کے
مجھ سے جدا ہے وہ مِرے درمیان بھی
میں پتھروں میں راہ بناتا ہوا چلوں
رہنے نہ دیں ہوائیں لہو کے نشان بھی
کتنا ہے خوش نصیب مظفر مِرا ہنر
دنیا مِری حریف بھی ہے قدردان بھی
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment