Wednesday 25 December 2019

سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی

دل کیا بجھا دھوئیں میں اٹا ہے جہان بھی
سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی
سوچوں کو بھی فضا نے اپاہج بنا دیا
بیساکھیاں لگائے ہوئے ہے اڑان بھی
آواز کے چراغ جلا تو دئیے، مگر
لو کی طرح بھڑکنے لگی ہے زبان بھی
صدیوں سے پھر رہا ہوں میں کس کی تلاش میں
رس گھولنے لگی ہے بدن میں تکان بھی
دو نام تو نہیں ہیں کہں اک وجود کے
مجھ سے جدا ہے وہ مِرے درمیان بھی
میں پتھروں میں راہ بناتا ہوا چلوں
رہنے نہ دیں ہوائیں لہو کے نشان بھی
کتنا ہے خوش نصیب مظفر مِرا ہنر
دنیا مِری حریف بھی ہے قدردان بھی

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment