میری جدائیوں سے وہ مل کر نہیں گیا
اس کے بغیر میں بھی کوئی مر نہیں گیا
دنیا میں گھوم پھر کے بھی ایسے لگا مجھے
جیسے میں اپنی ذات سے باہر نہیں گیا
کیا خوب ہیں ہماری ترقی پسندیاں
جغرافیے نے کاٹ دئیے راستے مرے
تاریخ کو گلہ ہے کہ میں گھر نہیں گیا
ایسی کوئی عجب عمارت تھی زندگی
باہر سے جھانکتا رہا اندر نہیں گیا
ڈالا نہ دوستوں کو کبھی امتحان میں
صحرا میں میرے ساتھ سمندر نہیں گیا
ذلت کے بھاؤ بک گئیں عزت مآبیاں
دستار اس کی جاتی رہی سر نہیں گیا
کاندھوں پہ اپنے لوگ اسے لے گئے کہاں
پیروں سے اپنے چل کے مظفر نہیں گیا
مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment