زبانوں کا بوسہ
زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے
یہ بوسہ کہ جس سے محبت کی صہبا کی اٹھتی ہے خوشبو
یہ بدمست خوشبو جو گہرا، غنودہ نشہ لا رہی ہے
یہ کیسا نشہ ہے؟
تم اپنی زباں میرے منہ میں رکھے جیسے پاتال سے میری جاں کھینچتے ہو
یہ بھیگا ہوا گرم و تاریک بوسہ
اماوس کی کالی برستی ہوئی رات جیسے امڈتی چلی آ رہی ہے
کہیں کوئی ساعت ازل سے رمیدہ
مِری روح کے دشت میں اڑ رہی تھی
وہ ساعت قرِیں تر چلی آ رہی ہے
مجھے ایسا لگتا ہے
تاریکیوں کے
لرزتے ہوئے پُل کو
میں پار کرتی چلی جا رہی ہوں
یہ پُل ختم ہونے کو ہے
اور اب
اس سے آگے
کہیں روشنی ہے
فہمیدہ ریاض
No comments:
Post a Comment