درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہو گی
پہلے دل درد آشنا کیجے
عرضِ شوخی، نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے
دشمنی ہو چکی بقدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
مرزا غالب
No comments:
Post a Comment