Friday, 27 December 2019

درد ہو دل میں تو دوا کیجے

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہو گی
پہلے دل درد آشنا کیجے
عرضِ شوخی، نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے
دشمنی ہو چکی بقدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے

مرزا غالب

No comments:

Post a Comment