Thursday, 12 December 2019

زخم پھر یاد پرانے آئے

جب بھی ہنسنے کے زمانے آئے
زخم پھر یاد پرانے آئے
بارہا ان کو منایا، تو ہمیں
روٹھ جانے کے بہانے آئے
پھر مجھے ٹوٹ کے چاہا اس نے
پھر بچھڑنے کے زمانے آئے
مسکرا کر ہمیں ملنے والے
زندگی بھر کو رُلانے آئے
تیری چاہت نے ٹھہرنے نہ دیا
راہ میں کتنے ٹھکانے آئے
تُو نہیں ہے تو ہوا کا جھونکا
گھر کی زنجیر ہلانے آئے
دل بجھا ہے نہ جلے ہیں خیمے
آپ کیوں جشن منانے آئے؟
راس آیا جنہیں صحرا محسنؔ
ان کی قسمت میں خزانے آئے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment