جنہیں زعمِ کماں داری بہت ہے
انہیں پر خوف بھی طاری بہت ہے
کچھ آنکھیں بھی ہیں بینائی سے عاری
کچھ آئینہ بھی زنگاری بہت ہے
نہ جانے کب لٹے گا شہرِ مقتل
کچھ اب کے ٹوٹنا چاہا تھا خود بھی
کچھ اب کے وار بھی کاری بہت ہے
یہاں پیہم قبیلے قتل ہوں گے
یہاں شوقِ عزاداری بہت ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment