Sunday 28 January 2018

بکھرتا جسم میری جاں کتاب کیا ہو گا

بکھرتا جسم میری جاں کتاب کیا ہو گا
تمہارے نام سے اب انتساب کیا ہو گا
تم اپنی نیند بھرے شہر میں تلاش کرو
جو آنکھ راکھ ہوئی اس میں خواب کیا ہو گا
وہ میری تہمتیں اپنے بدن پہ کیوں اوڑھے
میرے گناہ کا اس کو ثواب کیا ہو گا

دل یوں دھڑکا کہ پریشان ہوا ہو جیسے

دل یوں دھڑکا کہ پریشان ہوا ہو جیسے
بے دھیانی میں کوئی نقصان ہوا ہو جیسے
رخ بدلتا ہوں تو شہ رگ میں چبھن ہوتی ہے
عشق بھی جنگ کا میدان ہوا ہو جیسے
جسم یوں لمسِ رفاقت کے اثر سے نکلا
دوسرے دور کا سامان ہوا ہو جیسے

کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجا دی

فلمی گیت

کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجا دی 
میرے دل کی دھڑکنوں میں، نئی آرزو جگا دی
کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجا دی 

میری چاہتوں کا اب تک نہ اثر ہوا کسی پر 
انہیں کچھ خبر نہیں ہے یہاں زندگی مٹا دی ہے 
کسی مہرباں نے آ کے میری زندگی سجا دی 

ان کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی

فلمی گیت

ان کا ہی تصور ہے محفل ہو کہ تنہائی 
سمجھے کوئی دیوانہ جانے کوئی سودائی
ان کا ہی تصور ہے۔۔۔

نغموں کا بھرم ٹوٹا مے خانے کا در چھوٹا
جب ساز چھڑا کوئی، آواز تیری آئی
ان کا ہی تصور ہے۔۔۔

Saturday 27 January 2018

گزشتہ شب یوں لگا کہ اندر سے کٹ رہا ہو

گزشتہ شب یوں لگا کہ اندر سے کٹ رہا ہوں
میں اس اذیت میں، ساٹھ پینسٹھ مِنٹ رہا ہوں
تُو مجھ کو رونے دے یار! شانے پہ ہاتھ مت رکھ
میں گیلے کاغذ کی طرح چُھونے سے پھٹ رہا ہوں
یقین کر! سخت  سرد، بےجان آدمی تھا
گلے مِلا تو لگا ستوں سے لِپٹ رہا ہوں

جھک کے چلتا ہوں کہ قد اس کے برابر نہ لگے

جھک کے چلتا ہوں کہ قد اس کے برابر نہ لگے
دوسرا یہ کہ اسے راہ میں ٹھوکر نہ لگے
یہ تِرے ساتھ تعلق کا بڑا فائدہ ہے
آدمی ہو بھی تو اوقات سے باہر نہ لگے
نیم تاریک سا ماحول ہے درکار مجھے
ایسا ماحول جہاں آنکھ لگے، ڈر نہ لگے

ایک تاریخ مقرر پہ تو ہر ماہ ملے

ایک تاریخِ مقرر پہ تو ہر ماہ مِلے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ مِلے
رنگ اکھڑ جائے تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے
جمع تھے رات مِرے گھر ترے ٹھکرائے ہوئے
ایک درگاہ پہ سب راندۂ درگاہ ملے

بس اک اسی پہ تو پوری طرح عیاں ہوں میں

بس اک اسی پہ تو پوری طرح عیاں ہوں میں
وہ کہہ رہا ہے مجھے رائگاں، تو ہاں! ہوں میں
جسے دکھائی دوں، میری طرف اشارہ کرے
مجھے دکھائی نہیں دے رہا، کہاں ہوں میں
میں خود کو تجھ سے مٹاؤں گا احتیاط کے ساتھ
تُو بس نشان لگا دے، جہاں جہاں ہوں میں

Thursday 25 January 2018

آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو

آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں، سفر جاری رکھو
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے، موت سے یاری رکھو

اسے اب کے وفاؤں سے گزر جانے کی جلدی تھی

اسے اب کے وفاؤں سے گزر جانے کی جلدی تھی 
مگر اس بار مجھ کو اپنے گھر جانے کی جلدی تھی 
ارادہ تھا کہ میں کچھ دیر طوفاں کا مزہ لیتا 
مگر بے چارے دریا کو اتر جانے کی جلدی تھی 
میں اپنی مٹھیوں میں قید کر لیتا زمینوں کو 
مگر میرے قبیلے کو بکھر جانے کی جلدی تھی 

جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے سچ بولو

جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے، سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے، سچ بولو
گھر کے اندر جھوٹوں کی اک منڈی ہے
دروازے پہ لکھا ہوا ہے، سچ بولو
گلدستے پر یک جہتی لکھ رکھا ہے 
گلدستے کے اندر کیا ہے، سچ بولو

میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں

میں لاکھ کہہ دوں کہ آکاش ہوں زمیں ہوں میں 
مگر اسے تو خبر ہے کہ کچھ نہیں ہوں میں 
عجیب لوگ ہیں میری تلاش میں مجھ کو 
وہاں پہ ڈھونڈ رہے ہیں جہاں نہیں ہوں میں 
میں آئینوں سے تو مایوس لوٹ آیا تھا 
مگر کسی نے بتایا بہت حسیں ہوں میں 

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے

تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے
آتے جاتے ہیں کئی رنگ مِرے چہرے پر 
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے 
ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے 
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے 

Wednesday 24 January 2018

پرانی اور ممنوعہ کتابوں کے ذخیرے میں

پرانی اور ممنوعہ
کتابوں کے ذخیرے میں
مِرا متروک جیون ہے
جسے دیمک نے آدھا چاٹ ڈالا ہے
جو آدھا بچ گیا ہے
بانٹ دینا میرے بچوں میں

نصیر احمد ناصر

آموختہ

آموختہ 
(مختصر نظم)

رات کی دیوار پر 
چاک سے لکھ روشنی 
شکل سورج کی بنا

نصیر احمد ناصر

بے وصل موسموں میں

مختصر نظم

بے وصل موسموں میں
بادلوں پر حاشیہ نہیں لگایا جا سکتا 
اور بارشوں میں 
کاغذ کی نظمیں نہیں لکھی جا سکتیں

نصیر احمد ناصر

کیا اب میری باری ہے

کیا اب میری باری ہے؟

ہنستے کھیلتے 
واک پہ جاتے 
باتیں کرتے 
کافی پیتے 
نظمیں لکھتے 

Monday 22 January 2018

دل کے سارے غم و الم نکلے

دل کے سارے غم و الم نکلے
اب کہ پتھر تلک صنم نکلے
ان کی آنکھوں نے میزبانی کی
ہم بھی محفل میں محترم نکلے
کیتلی پر نگاہ ان کی ہو
کیسے چائے کا پھر نہ دم نکلے

سچ کٹھن امتحان لگتا ہے

سچ کٹھن امتحان لگتا ہے
جھوٹ اب مہربان لگتا ہے
سچ کو ایسا کیا گیا جھوٹا
جھوٹ سچا بیان لگتا ہے
سچ مسافر ہے کوئی بھٹکا ہوا
جھوٹ اک کاروان لگتا ہے

دھوئیں سے آسمان بنتے ہیں

دھوئیں سے آسمان بنتے ہیں
گھر کہاں، اب مکان بنتے ہیں
بھول جاتے ہیں چار دن میں سب
زخم اب کب نشان بنتے ہیں 
ہم اکیلے ہیں بے ضرر پتھر 
آؤ مل کر چٹان بنتے ہیں 

Sunday 21 January 2018

یہ طے ہوا ہے کہ قاتل کو بھی دعا دیجے

یہ طے ہوا ہے کہ قاتل کو بھی دعا دیجے 
خود اپنا خون بہا پھر بھی خوں بہا دیجے 
نیاز و ناز بجا ہیں مگر یہ شرط وصال 
ہے سنگ راہ‌ تعلق اسے ہٹا دیجے 
سنا تھا ہم نے کہ منزل قریب آ پہنچی 
کہاں ہیں آپ، اگر ہو سکے صدا دیجے 

سہمے سہمے چلتے پھرتے لاشے جیسے لوگ

سہمے سہمے چلتے پھرتے لاشے جیسے لوگ 
وقت سے پہلے مر جاتے ہیں کتنے ایسے لوگ 
سر پر چڑھ کر بول رہے ہیں پودے جیسے لوگ 
پیڑ بنے خاموش کھڑے ہیں کیسے کیسے لوگ 
چڑھتا سورج دیکھ کے خوش ہیں کون نہیں سمجھائے 
تپتی دھوپ میں کمہلائیں گے غنچے جیسے لوگ 

سروں کی فصل کاٹی جا رہی ہے

سروں کی فصل کاٹی جا رہی ہے 
وہ دیکھو سرخ آندھی آ رہی ہے 
ہٹا لو صحن سے کچے گھڑوں کو 
کہیں ملہار سوہنی گا رہی ہے 
مِری دستار کیسے بچ سکے گی 
قسم وہ میرے سر کی کھا رہی ہے 

Saturday 20 January 2018

ہنس رہی ہوں خواب سارے میں ادھورے چھوڑ کر

تتلیاں، جگنو، شجر، خوشبو، پرندے چھوڑ کر
ہنس رہی ہوں خواب سارے میں ادھورے چھوڑ کر
جس کی آنکھوں نے لکھا تھا آخری نوحہ مرا
وہ گیا بھی تو گیا ہے سب سے پہلے چھوڑ کر
ڈھونڈتی پھرتی ہوں اپنے آپ کو کچھ اس طرح
آ گئی ہوں جس طرح میں خود کو پیچھے چھوڑ کر

جب تلک خوف ہوا رہتا ہے

جب تلک خوفِ ہوا رہتا ہے 
دل اندھیروں میں پڑا رہتا ہے
عشق کی خاص کرامت یہ ہے
جو نہیں رہتا، سدا رہتا ہے
تم وہی دریا ہو نا! جو اکثر 
مِرے کوزے میں بھرا رہتا ہے

میرے بالوں میں چاندی کا کوئی تار آ جائے

میرے بالوں میں چاندی کا کوئی تار آ جائے
اس سے پہلے ہی وہ گھوڑے پہ سوار آ جائے
دور تک یوں مِری مٹی میں وہ اترا ہوا ہے
روٹھنا چاہوں تو اس شخص پہ پیار آ جائے
یہ محبت تو مجھے خاک پہ لے آئی ہے
کاش پھر سے مِری کونجوں کی قطار آ جائے

عذاب ہجر نہ میں موسم ملال میں ہوں

عذابِ ہجر نہ میں موسمِ ملال میں ہوں
رہِ عروج میں ہوں، ہیبتِ زوال میں ہوں
میں اپنی ذات کا مقصد سمجھ نہیں پایا
جواب ڈھونڈ رہا ہوں، کسی سوال میں ہوں
سنور رہی ہے سرِ چاک میری خاک ابھی
میں منتشر سہی لیکن تِرے کمال میں ہوں

ضبط کی ڈور سے بندھی ہیں فقط

ضبط کی ڈور سے بندھی ہیں فقط
وہ پتنگیں ہی کیوں کٹی ہیں فقط
عشق وہ نارِ جاوِداں جس میں
جسم کی لکڑیاں جلی ہیں فقط
عمر کے اس مہیب زنداں میں
موت کی کھڑکیاں کھلی ہیں فقط

بے دام ہم بکے سر بازار عشق میں

بے دام ہم بکے سرِ بازار عشق میں
رسوا ہوئے جنوں کے خریدار عشق میں
زنجیریں بن گئیں میری آزادیاں حضور
زندانِ شب ہے کوچۂ دلدار عشق میں
درپیش پھر سے عشق کو صحرا کا ہے سفر
نیزوں پہ سر سجے سوئے دربار عشق میں

اس دورِ صد آشوب کی سرکار پہ لعنت

اس دورِ صد آشوب کی سرکار پہ لعنت
ہر ننگِ وطن شاہ کے دربار پہ لعنت
افلاس کی قبروں سے یہ آتی ہیں صدائیں
لاشوں سے سجے بھوک کے بازار پہ لعنت
بک جائے جہاں دخترِ مشرق سر بازار
اس محشرِ عصمت کے خریدار پہ لعنت

لبوں پہ کیا وہ مرے دل میں شہد گھولتا ہے

لبوں پہ کیا وہ مرے دل میں شہد گھولتا ہے
جو جادو حسن کا سر چڑھ کے میرے بولتا ہے
سپاہِ عشق کے لشکر سے ہے وفا میری
چلا کے تیر وہ نیزے پہ سر کو تولتا ہے
جو پیاسا دشتِ محبت میں جان ہارا تھا
فلک کی اوڑھ سے رازِ شکست کھولتا ہے

دیار عشق سے یوں تیرگی نکل جائے

دیارِ عشق سے یوں تیرگی نکل جائے
جگر کی آگ سے دل کا چراغ جل جائے
نگاہِ فقر میں تصویرِ دو جہاں بدلے
جہاں میں ایک بھی ذرہ اگر بدل جائے
غریقِ بحر ہوئے سیلِ خود نمائی میں
بھنور میں ڈوبتی کشتی کہاں سنبھل جائے

یہاں معنی کا بے صورت صلہ نئیں

یہاں معنی کا بے صورت صِلا نئیں
عجب کچھ میں نے سوچا ہے لکھا نئیں
ہیں سب اک دوسرے کی جستجو میں
مگر کوئی کسی کو بھی ملا نئیں
ہمارا ایک ہی تو مدعا تھا
ہمارا اور کوئی مدعا نئیں

کیا ہوئے آشفتہ کاراں کیا ہوئے

کیا ہوئے آشفتہ کاراں کیا ہوئے
یاد یاراں، یار یاراں کیا ہوئے
اب تو اپنوں میں سے کوئی بھی نہیں
وہ پریشاں روزگاراں کیا ہوئے
سو رہا ہے شام ہی سے شہر دل
شہر کے شب زندہ داراں کیا ہوئے

عمر گزرے گی امتحان میں کیا

عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دینگے مجھ کو دان میں کیا
مِری ہر بات بے اثر ہی رہی
نَقص ہے کچھ مِرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا

میں تو سودا لئے پھرا سر میں

میں تو سودا لیے پھرا سَر میں
خاک اڑتی رہی مِرے گھر میں
نہ ہوا تُو مجھے نصیب تو کیا
میں ہی اپنے نہ تھا مقدر میں
لے کے سمتوں کی ایک بے سمتی
گُم ہوا ہوں میں اپنے پیکر میں

مسکرا کر خطاب کرتے ہو

مسکرا کر خطاب کرتے ہو
عادتیں کیوں خراب کرتے ہو
کیا ضرورت ہے بحث کرنے کی
کیوں کلیجہ کباب کرتے ہو
ہو چکا جو حساب ہونا تھا
اور اب کیا حساب کرتے ہو

وہ روشنی وہ رنگ وہ حدت وہ آب لا

وہ روشنی، وہ رنگ، وہ حدت، وہ آب لا
ساقی طلوع ہوتا ہوا آفتاب لا
زلفوں کے جال ہوں کہ بھنوؤں کے ہلال ہوں
اچھی سی چیز کر کے کوئی انتخاب لا
ساقی کوئی بھڑکتی ہوئی سی شراب دے
مطرب کوئی تڑپتا ہوا سا رباب لا

بہت سوچنے میں بھی نقصان ہے

بہت سوچنے میں بھی نقصان ہے
خِرد وَر وہی جو نادان ہے
مجھے حتی الامکان تکلیف دو
یہی میری صحت کا حفظان ہے
یہ شے بھی ہے گر کام کی شے کوئی
تو ہستی میری تم پر قربان  ہے

روشنی مے کے آبگینوں کی

روشنی مئے کے آبگینوں کی 
جنبشِ چشم ہے حسینوں کی
ناخدا کو ڈبو کے لوٹ آئے
نیتیں ٹھیک تھیں سفینوں کی
کس مروت سے پیش آتے ہیں
خیر ہو مئے کدہ نشینوں کی

دل کو فرصت ہو ذرا صدموں سے

دل کو فرصت ہو ذرا صدموں سے
جا نکل جا تُو مِرے خوابوں سے
رنگ سے، موسموں سے، خوشبو سے
اب نہ بنتی ہے حسیں چہروں سے
جب سے تنہائی مِری محفل ہے
پردے اٹھنے لگے ہیں رازوں سے

خواب سارے سو گئے ہیں

خواب سارے سو گئے ہیں
لوگ اندھے ہو چکے ہیں
زندگی کے شوق میں ہم
موت سے پہلے مرے ہیں
جان سے زینب گئی ہے
دفن میں اور تم ہوئے ہیں

کوئی دوجا تمہارے بعد نہیں

کوئی دوجا تمہارے بعد نہیں 
کون ہو تم؟ مگر یہ یاد نہیں
جو تھی رونق تمہارے دم سے تھی
اب کوئی شہر میں فساد نہیں
یاد اب کون کس کو کرتا ہے 
بیچ میں گر کوئی مفاد نہیں

پیسہ بن جائے جب زباں صاحب

پیسہ بن جائے جب زباں صاحب 
کس کو سچا کہیں وہاں صاحب
یہ غلامی ہے ناخداؤں کی
سوچ اپنی ہے اب کہاں صاحب
کس کی پھر سچ تلک رسائی ہو
جھوٹ پڑتا ہے درمیاں صاحب

Friday 19 January 2018

بے اثر ہو گئے سب حرف و نوا تیرے بعد

قائد کے حضور

بے اثر ہو گئے سب حرف و نوا تیرے بعد
کیا کہیں دل کا جو احوال ہوا تیرے بعد
تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے
ایسی بدلی ترے کوچے کی فضا تیرے بعد
اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی
ہم سے اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد

ابھی کچھ دن لگیں گے

ابھی کچھ دن لگیں گے
دل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے
جہانِ رنگ کے سارے خس و خاشاک
سب سرو و صنوبر پھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے

مالک میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا

دعا

مالک! میری گڑیا کے سب رنگ سلامت رکھنا
مجھ کو ڈر لگتا ہے
کچے رنگ تو بارش کی ہلکی سی پھوار 
میں بہہ جاتے ہیں 
ایک ذرا سی دھوپ پڑے تو 
اڑ جاتے ہیں 

سوچتے ہیں کیا لکھیں

سوچتے ہیں کیا لکھیں

خلق ہم سے کہتی ہے، سارا ماجرا لکھیں
کس نے کس طرح پایا اپنا خوں بہا، لکھیں
چشمِ نم سے شرمندہ، ہم قلم سے شرمندہ
سوچتے ہیں کیا لکھیں

افتخار عارف

نجومی اکھیاں

نجومی اکھیاں

ستاروں کی چالیں نہ اب من کو بھائیں
 نجومی ہتھیلی کہو مت کریدے
مجھے اب ضرورت نہیں زائچے کی
یہ اکھیاں یہ تیری مقدر دکھائیں

زبیر فیصل عباسی

تیرے رنگوں میں ڈھلتی تھی

ایک شام

تیرے رنگوں میں ڈھلتی تھی
میرے غم کی پہلی شام
سانس میں وقت اٹک گیا تھا
کتنی تھی وہ بوجھل شام

زبیر فیصل عباسی

بارش آگ پکڑ سکتی ہے

ساون رُت میں بہتا کاجل
ہجر گھڑی میں یاد کا شعلہ
ہم نے اس کو کہہ ڈالا ہے
بارش آگ پکڑ سکتی ہے

زبیر فیصل عباسی

زم زم کی تاثیر ملی تھی

زم زم کی تاثیر ملی تھی
جس پانی میں بہتے رہے تھے
تنہا تنہا خواب ہمارے
اکھڑے اکھڑے سانس ہمارے

زبیر فیصل عباسی

Thursday 18 January 2018

تری آنکھ کو آزمانا پڑا

تِری آنکھ کو آزمانا پڑا
مجھے قصۂ غم سنانا پڑا
غمِ زندگی تیری خاطر ہمیں
سرِ دار بھی مسکرانا پڑا
حوادث کی شب اتنی تاریک تھی
جوانی کو ساغر اٹھانا پڑا

دل جلا کر بھی دلربا نکلے

دل جلا کر بھی دل ربا نکلے 
میرے احباب کیا سے کیا نکلے
آپ کی جستجو میں دیوانے 
چاند کی رہگزر پہ جا نکلے
سوزِ مستی ہی جب نہیں باقی
سازِ ہستی سے کیا صدا نکلے 

پلکوں سے چن

پلکوں سے چُن
خوابوں کی دُھن
جھونکے پہن
خوشبو کو سُن
نقطے میں چھپ
اپنا یہ گُن

اس کا بدن

اس کا بدن
معراجِ فن
خوشبو نفس
چہرہ، چمن
لب پر کھلیں
لعلِ یمن

کوئی زیر و زبر نہیں بچتا

کوئی زیر و زبر نہیں بچتا 
یہ تو طے ہے کہ شر نہیں بچتا 
جیسے لوگوں میں آ گیا ہوں میں 
اب تو رختِ سفر نہیں بچتا
کشمکش جان لے کے چھوڑے گی 
دل بچاؤں تو گھر نہیں بچتا 

یہاں تو یہ بھی ممکن ہے

یہاں تو یہ بھی ممکن ہے
ہم اتنی دیر سے بچھڑے کبھی ملنے ملانے کو چلے
تو بھاگ کر کوئی جدائی ساتھ ہی ہو لے
کبھی بازار کو جائیں تو تنہائی لپٹ جائے
یہاں تو یہ بھی ممکن ہے
کبھی ہم دیر سے گھر آئیں تو

اک تصویر ہے

میں

اک تصویر ہے
جس میں میرے سارے شہر کا منظر ہے
منظر میں اک ویرانہ ہے
اور اس ویرانے میں دل

فرحت عباس شاہ

آنکھوں کے پار چاند

آنکھوں کے پار چاند

اس کائنات رنگ میں 
دنیائے سنگ میں 
ہم قید تو نہیں تھے مگر 
اس کے باوجود 
آزادیوں نے لطفِ رہائی نہیں دیا

آنکھ وحشت میں سموتی ہوں بہت بولتی ہوں

آنکھ وحشت میں سموتی ہوں بہت بولتی ہوں
جب نیا خواب پروتی ہوں، بہت بولتی ہوں
تم نے دیکھے نہیں فرصت سے خدوخال مِرے
جب میں تصویر میں ہوتی ہوں بہت بولتی ہوں
مجھ کو اچھی نہیں لگتی یہ شکستہ حالی
جب بھی آنچل کو بھگوتی ہوں بہت بولتی ہوں

وصل ترمیم شدہ

وصل ترمیم شدہ
ہجر تجسیم شدہ
ذہن ناخواندہ کیوں؟
میرے تعلیم شدہ
تم بھی ٹوٹے ہوئے ہو
میں بھی تقسیم شدہ

میرے محرما ہے دعا میری

ماہیا/ثلاثی/سہ حرفی/ہائیکو/تروینی/ترائلے

میرے محرما! ہے دعا میری
مجھے عشق میں جو لگی ابھی
تجھے ایسی چپ نہ لگے کبھی

کومل جوئیہ

Wednesday 17 January 2018

وہ بھی سراہنے لگے ارباب فن کے بعد

وہ بھی سراہنے لگے اربابِ فن کے بعد 
دادِ سخن ملی مجھے ترکِ سخن کے بعد 
دیوانہ وار چاند سے آگے نکل گئے 
ٹھہرا نہ دل کہیں بھی تری انجمن کے بعد 
ہونٹوں کو سی کے دیکھیے پچھتائیے گا آپ 
ہنگامے جاگ اٹھتے ہیں اکثر 'گھٹن' کے بعد

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

نوحہ

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی 
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی 
ڈرتا ہوں کہیں خشک نہ ہو جائے سمندر 
راکھ اپنی کبھی آپ بہاتا نہیں کوئی 
اک بار تو خود موت بھی گھبرا گئی ہو گی 
یوں موت کو سینے سے لگاتا نہیں کوئی 

Tuesday 16 January 2018

مجھے تو شور قیامت دلوں میں ملتا ہے

 مجھے تو شورِ قیامت دلوں میں مِلتا ہے

سکونِ قلب کہاں جنگلوں میں ملتا ہے

وہ مجھ سے دور اگر ہے تو کیا ہوا آخر

وہ میرے دھیان، مِری دھڑکنوں میں ملتا ہے

خوشی کے دن بھی گزارے مگر نہ ہاتھ آیا

وہ اک سرور جو مجھ کو دکھوں میں ملتا ہے

پر ہول جنگلوں کی صدا میرے ساتھ ہے

 پُر ہول جنگلوں کی صدا میرے ساتھ ہے 

میں جس طرف بھی جاؤں ہوا میرے ساتھ ہے 

دنیا میں آج مجھ کو بلاؤں کا ڈر نہیں 

ہر لمحہ میری ماں کی دعا میرے ساتھ ہے 

دشوار راستوں میں حفاظت کرے گا وہ 

میں مطمئن ہوں میرا خدا میرے ساتھ ہے 

خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے

 خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے 

کھلی فضا کی تمنا تھی، اور قفس میں رہے 

بچھڑ کے مجھ سے عذاب ان پہ بھی بہت گزرے 

وہ مطمئن نہ کسی پَل کسی برس میں رہے 

میں ایک عمر سے ان کو تلاش کرتا ہوں 

کچھ ایسے لمحے تھے جو اپنی دسترس میں رہے 

میں رتجگوں کے مکمل عذاب دیکھوں گا

میں رتجگوں کے مکمل عذاب دیکھوں گا 

کسی نے جو نہیں دیکھے وہ خواب دیکھوں گا 

وہ وقت آئے گا میری حیات میں جب میں 

محبتوں کے چمن میں گلاب دیکھوں گا 

گھرا ہوا ہوں اندھیروں میں غم نہیں مجھ کو 

شبِ سیاہ کے بعد آفتاب دیکھوں گا 

Sunday 14 January 2018

ہمجولیوں کے ساتھ جوانی کی رات تھی

ہمجولیوں کے ساتھ جوانی کی رات تھی
پھولوں کا تذکرہ تھا ستاروں کی بات تھی
میں نے ہر ایک چیز کو اپنا سمجھ لیا 
مجھ کو خبر نہ تھی یہ تِری کائنات تھی
کلیوں کے اضطراب سے اڑتا ہے رنگِ گل
پچھلی بہار میں بھی کچھ ایسی ہی بات تھی

گرتے ہیں لوگ گرمیِ بازار دیکھ کر

گرتے ہیں لوگ گرمئ بازار دیکھ کر
سرکار! دیکھ کر، مِری سرکار دیکھ کر
آسان راستے کبھی پہنچے نہیں کہیں
ڈرتی ہے عقل راہ کو ہموار دیکھ کر
آوارگی کا شوق بھڑکتا ہے اور بھی
اس کی گلی کا سایۂ دیوار دیکھ کر

خبر کوئی میری اگر پائیے گا

خبر کوئی میری اگر پائیے گا
مجھے بھی مِرے ساتھ ملوائیے گا
زمانے کا دستور ہے نکتہ چینی
زمانے سے بالکل نہ گھبرائیے گا
کسر دشمنی کی کوئی رہ گئی ہے
تو اِک روز تشریف لے آئیے گا

یہ جنگل ایک گہوارہ ہے خونی وارداتوں کا

یہ جنگل ایک گہوارہ ہے خونی وارداتوں کا
یہ صحرا ایک میداں ہے جنونی وارداتوں کا
یہاں کا ذرہ ذرہ ظلم و سفاکی کا مظہر ہے
یہاں کا آسماں اک نیلگوں خاموش پتھر ہے
نیاموں سے نکل آتی ہیں جب خونریز شمشیریں
برستی ہیں اندھیرے میں جب آتش ریز شمشیریں

مشرق کے ائرپورٹ پر مغرب کا دھتورا

مسکراتی غزل

مشرق کے ائرپورٹ پر مغرب کا دھتورا
ہنستے ہوئے آپ سناتا ہے غفورا
ایک میم اٹھاۓ ہوۓ بانہوں میں کتورا
آئی جو نظر تو دل ہو گیا چورا
فوراً اٹھا مار کر لمبا سا کھنگھورا
تعبیر کی جانب رواں تھا خواب ادھورا

Thursday 11 January 2018

شام تنہائی قیامت سے کڑی ہے اور میں

شامِ تنہائی قیامت سے کڑی ہے اور میں
ایک برچھی سی کلیجے میں گڑی ہے اور میں
میرے بکھرے ہوئے ٹکڑے تو سمیٹے جائیں
آپ کو جشن منانے کی پڑی ہے اور میں
باعثِ شرم ہے یارو! مِرا دریا ہونا
سامنے خلقِ خدا پیاسی کھڑی ہے اور میں

نظر انداز ہو کر بھی اسی محفل کا حصہ ہوں

نظر انداز ہو کر بھی اسی محفل کا حصہ ہوں
کسی کی آنکھ کا تارا کسی کے دل کا حصہ ہوں
مِری پیوستگی کا امتحاں لیتا ہوا دریا
کسی دن جان جائے گا کہ میں ساحل کا حصہ ہوں
فرشتوں جیسی سیرت کی توقع مجھ سے مت رکھنا
بشر زادہ ہوں اور دنیائے آب و گل کاحصہ ہوں

Wednesday 10 January 2018

اے جاں یہ خموشی کیسی

بلوچی شاعر ملا فاضل کی بلوچی نظم کا اردو ترجمہ

اے جاں یہ خموشی کیسی
جاناں یہ اداسی کیسی
تو ایک دھڑکتی لَے ہے
نغمہ ہے سرورِ نَے ہے 
سنوارے تو پھواروں کا راگ
جھکے مرمریں گل اندام

کوئی آئے باغ میں اس طرح

کار اصل زیست 

کوئی آئے باغ میں اس طرح 
کوئی دید جیسے بہار میں
کوئی رنگدار سحر اڑے 
کسی گوشۂ شب تار میں 
کوئی یاد اس میں ہو اس طرح
کوئی رنج جیسے خمار میں

زندگی شام کا سورج خود اپنے ہی لہو کی دھار

زندگی

شام کا سورج خود اپنے ہی لہو کی دھاریوں میں ڈوب کر
دیکھتا ہے بجھتی آنکھوں سے سوادِ شہر کے سونے کھنڈر
اس کو لے جائے گی پل بھر میں فنا کے گھاٹ پر
رات کے بحرِ سیہ کی موج ہے گرمِ سفر
دیکھتی آنکھوں افق کے سرد ساحل پر اندھیرا چھائے گا
ڈوبتا سورج ابھی بھولے دنوں کی داستاں بن جائے گا

راستے کی تھکن

راستے کی تھکن

آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے
شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے
پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے

کتنے جتن کیے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے
چلتے چلتے ہار گیا میں پھر بھی راہ ادھوری ہے
گھائل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے

منیر نیازی

وہاں جس جگہ پر صدا سو گئی ہے

تُو

وہاں، جس جگہ پر صدا سو گئی ہے
ہر اک سمت اونچے درختوں کے جھنڈ
ان گنت سانس روکے ہوئے کھڑے ہیں
جہاں ابر آلود شام اڑتے لمحوں کو روکے ابد بن گئی ہے
وہاں عشق پیچاں کی بیلوں میں لپٹا ہوا اک مکاں ہو
اگر میں کبھی راہ چلتے ہوئے اس مکاں کے دریچوں کے

Monday 8 January 2018

تم پہ بے اختیار مرتے ہیں

تم پہ بے اختیار مرتے ہیں
لوگ دیوانہ وار مرتے ہیں
پہلے میں مر رہا تھا تفریحاً
اب مِرے غمگسار مرتے ہیں
جن کو پڑ جائے موت کا چسکا
کس طرح بار بار مرتے ہیں

کیا کسی فرضی جہاں کی بات ہے

کیا کسی فرضی جہاں کی بات ہے
رسمِ  ہمدردی کہاں کی بات ہے
بات اس کی کتنی کڑوی کیوں نہ ہو
پھر بھی ربطِ جسم و جاں کی بات ہے
کر رہے ہیں وہ جو خوش کرنے کی بات
یہ بھی کوئی امتحاں کی بات ہے

ضرورت بھی کتنا بڑا گھاؤ ہے

ضرورت بھی کتنا بڑا گھاؤ ہے
کہ ہر شے کا ڈستا ہوا بھاؤ ہے
کسی حادثے کا نہیں خوف اب
کنارے کی آغوش میں ناؤ ہے
خدارا نہ انگڑائی لے جھوم کر
بہت تنگ ہستی کا پھیلاؤ ہے

غم زمانہ کو غرق شراب کر دوں گا

غمِ زمانہ کو غرقِ شراب کر دوں گا
شبِ سیہ کو شبِ مہتاب کر دوں گا
گماں نہ کر کہ مجھے جرأت سوال نہیں
فقط یہ ڈر ہے تجھے لاجواب کر دوں گا
میں بد نصیب ہوں مجھ کو نہ دے خوشی اتنی
کہ میں خوشی کو بھی لے کر خراب کر دوں گا

Friday 5 January 2018

جیسے نکلا اپنا جنازہ ایسے جنازے کم نکلے

آگے اسپِ خونی چادر اور خونی پرچم نکلے
جیسے نکلا اپنا جنازہ ایسے جنازے کم نکلے
دور اپنی خوش ترتیبی کا رات بہت ہی یاد آیا
اب جو کتابِ شوق نکالی سارے ورق برہم نکلے
حیف درازی اس قصے کی، اس قصے کو ختم کرو
کیا تم نکلے اپنے گھر سے، اپنے گھر سے ہم نکلے

ہے رنگ ایجاد بھی دل میں اور زخم ایجاد بھی ہے

ہے رنگِ ایجاد بھی دل میں اور زخم ایجاد بھی ہے
یعنی جاناں دل کا تقاضا آہ بھی ہے، فریاد بھی ہے
تیشۂ ناز نے میری انا کے خوں کی قبا پہنائی مجھے
میں جو ہوں پرویز ہوں اک، جو ظالم فرہاد بھی ہے
منحصر اس کی منشا پر ہے کس طور اس سے پیش آؤں
قید مِری بانہوں میں وہ ہو کر وہ قاتل آزاد بھی ہے

زرد اداسی کی وحشت ہے اور فضائے شام خزاں

زرد ہوائیں، زرد آوازیں، زرد سرائے شامِ خزاں
زرد اداسی کی وحشت ہے اور فضائے شامِ خزاں
شیشے کی دیوار و در ہیں اور پاس آداب کی شام
میں ہوں میری بیزاری ہے اور صحرائے شام خزاں
سورج پیڑوں پار جھکا ہے، شاخوں میں لالی پھوٹی
مہکے ہیں پھر اک گم گشتہ رنگ کے سائے شام خزاں

دل کی دلی بھی ہار بیٹھے ہیں

ہم جو بے حال زار بیٹھے ہیں
دل کی دلی بھی ہار بیٹھے ہیں
ہم سے مت کیجیو وجود کی بات
ہم عدم کو گزار بیٹھے ہیں
ہے وہ بد محفلی کہ مت پوچھ
یار آئے ہیں، یار بیٹھے ہیں

Thursday 4 January 2018

میرا سورج

میرا سورج

مہتاب بدن والے تِرا لمس چرا لوں 
تو سُر ہے تو سنگیت ہے من میت ہے میرا
جگجیت ہے گلزار ہے تو پیار ہے میرا
سنگھار ہے بھگون ہے تو سرکار سجن اور 
دلدار ہے اوتار ہے میں داسی ہوں تیری
چرنوں میں پڑی تورے کرم تورے بھرم کی 

ہجر آباد جانتی ہوں تم کہاں ہو

ہجر آباد

سردیوں کی پہلی بارش ہے 
تمہاری یاد ہے ویران کمرہ ہے کتابیں ہیں 
اداسی ہے خموشی ہے
چراغوں کا دھواں ہے
اور میں ہوں 
سامنے کھڑکی کھلی ہے

راج کماری

راج کماری

حضرتِ عشق درِ قیس تو دکھلائیں مجھے
ارمغانِ دلِ برباد لیے آئی ہوں
خواب کا شہر جلانا ہے اڑانی ہے راکھ
اس لیے آنکھ کو آباد لیے آئی ہوں
مجھ کو اس بستی سے بے دخل کیا لوگوں نے
جس کے در نہیں بنیاد لیے آئی ہوں

حصار رنج میں رہتے ہوئے تجھے چاہوں

خواب

حصارِ رنج میں رہتے ہوئے تجھے چاہوں 
غبار راہ یقیں میں سدا تجھے دیکھوں 
جبینِ وقت پہ ہر آن بس تجھے لکھوں 
چراغِ ہجر بنوں رات بھر تِری آنکھوں 
کے جنگلوں میں کروں روشنی اڑاؤں تِری 
سنہری نیند اندھیروں بھرے مکانوں میں 

Wednesday 3 January 2018

یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا سارے منظر بھول گئے

یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا، سارے منظر بھول گئے
اس کی گلیوں سے جب لوٹے، اپنا بھی گھر بھول گئے
خوب گئے پردیس کہ اپنے دیوار و در بھول گئے
شیش محل نے ایسا گھیرا، مٹی کے گھر بھول گئے
تجھ کو بھی جب اپنی قسمیں، اپنے وعدے یاد نہیں
ہم بھی اپنے خواب تری آنکھوں میں رکھ کر بھول گئے

میں ایک قرض ہوں سر سے اتار دے مجھ کو

میں ایک قرض ہوں سر سے اتار دے مجھ کو 
لگا کے داؤں پہ اک روز ہار دے مجھ کو 
بکھر چکا ہوں غمِ زندگی کے شانوں پر 
اب اپنی زلف کی صورت سنوار دے مجھ کو 
ہزار چہرے ابھرتے ہیں مجھ میں تیرے سوا 
میں آئینہ ہوں تو گرد و غبار دے مجھ کو 

جب نہ آنے کی قسم آپ نے کھا رکھی تھی

جب نہ آنے کی قسم آپ نے کھا رکھی تھی 
میں نے پھر کس کے لیے شمع جلا رکھی تھی 
رکھ دیا ان کو بھی جھولی میں ستم گاروں کی 
میں نے جن ہاتھوں سے بنیادِ وفا رکھی تھی 
جانتا کون بھلا کیسے کسی کے حالات 
وقت نے بیچ میں دیوار اٹھا رکھی تھی 

روز خوابوں میں نئے رنگ بھرا کرتا تھا

روز خوابوں میں نئے رنگ بھرا کرتا تھا 
کون تھا جو مِری آنکھوں میں رہا کرتا تھا 
انگلیاں کاٹ کے وہ اپنے لہو سے اکثر 
پھول پتوں پہ مِرا نام لکھا کرتا تھا 
کیسا قاتل تھا جو ہاتھوں میں لیے تھا خنجر 
چپکے چپکے مِرے جینے کی دعا کرتا تھا 

Pity the Nation: Khalil Jibran

Pity the Nation

قابلِ رحم ہے وہ قوم
جس کے پاس عقیدے تو بہت ہیں
مگر دل یقیں سے خالی ہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم
جو ایسے کپڑے پہنتی ہے

حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے

حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے
سر پر ہیں خداوند، سرِ عرش خدا ہے
کب تک اسے سینچو گے تمنائے ثمر میں
یہ صبر کا پودا تو نہ پھولا نہ پھلا ہے
ملتا ہے خراج اس کو تِری نانِ جویں سے
ہر بادشہِ وقت تِرے در کا گدا ہے

زنداں سے ایک خط

زنداں سے ایک خط

مِری جاں تجھ کو بتلاؤں، بہت نازک یہ نکتہ ہے
بدل جاتا ہے انساں جب، مکاں اس کا بدلتا ہے
مجھے زنداں میں پیار آنے لگا ہے اپنے خوابوں پر
جو شب کو نیند اپنے مہرباں ہاتھوں سے
وا کرتی ہے در اس کا

یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آخر شب

یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آخرِ شب
دل میں بکھری کوئی خوشبوئے قبا آخرِ شب
صبح پھوٹی تو وہ پہلو سے اٹھا آخرِ شب
وہ جو اک عمر سے آیا نہ گیا آخرِ شب
چاند سے ماند ستاروں نے کہا آخرِ شب
کون کرتا ہے وفا، عہدِ وفا آخرِ شب

Tuesday 2 January 2018

اس کی انا کے بت کو بڑا کر کے دیکھتے

اس کی انا کے بت کو بڑا کر کے دیکھتے 
مٹی کے آدمی کو خدا کر کے دیکھتے 
مایوسیوں میں یوں ہی تمنا اجاڑ دی 
اٹھے ہوئے تھے ہاتھ دعا کر کے دیکھتے 
دشمن کی چاپ سن کے نہ خاموش بیٹھتے 
جو فرض تم پہ تھا وہ ادا کر کے دیکھتے 

تلاش جس کو میں کرتا پھرا خرابوں میں

تلاش جس کو میں کرتا پھرا خرابوں میں 
ملا وہ شخص مجھے رات میرے خوابوں میں 
میں اس کو غرفۂ دل میں بھلا چھپاؤں کیا 
جو لفظ لفظ ہے بکھرا ہوا کتابوں میں 
دم وصال تِری آنچ اس طرح آئی 
کہ جیسے آگ سلگنے لگے گلابوں میں 

کون پوچھے گا بھلا تجھ کو یہاں انور سدید

کون پوچھے گا بھلا تجھ کو یہاں انور سدید
اپنے کاندھے پر اٹھا بار گراں، انور سدید
ڈھونڈ اپنا آشیانہ آسمانوں سے پرے
یہ زمیں تو ہو گئی نامہرباں انور سدید
خود ہی رو لے دیکھ کر اہلِ جہاں کی بے رخی
اور خود ہی پونچھ لے اشکِ رواں انور سدید

دل بادشاہ کی خیر ہو

دل بادشاہ کی خیر ہو
تِرے خیر خواہ کی خیر ہو
وہ غزل نہیں مِری آہ تھی
تِری واہ واہ کی خیر ہو
مِرا جرم ہے یہی عشق گر
مِرے اس گناہ کی خیر ہو

دوستی دشمنی بہانے ہیں

دوستی دشمنی بہانے ہیں
کچھ تعلق ہیں جو نبھانے ہیں
آئینے کو یہ ہم نے بتلایا
ہم فلانے نہیں، فلانے ہیں
کاٹ آئے ہیں گردشِ دوراں
گردشِ عشق کے زمانے ہیں

زمیں سے دور کہاں آسمان لگتا ہے

زمیں سے دور کہاں آسمان لگتا ہے
وہ ساتھ ہو تو خدا مہربان لگتا ہے
یہ انتظار بھی کتنی بڑی اذیت ہے
جو خوش کلام تھا اب بے زبان لگتا ہے
جو کامیاب رہا کارزارِ ہستی میں 
وہ بوڑھا ہو کے بھی کتنا جوان لگتا ہے

ضبط کا امتحاں ضروری ہے

ضبط کا امتحاں ضروری ہے
کوئی دردِ نہاں ضروری ہے
وصل کی مختصر کہانی میں 
ہجر کی داستاں ضروری ہے
اک حقیقت تراشنے کے لیے
پہلے کوئی گماں ضروری ہے

خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا

خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مِرے گمان میں کیا
دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تِری امان میں کیا

معمول

معمول

جانے کب سے
مجھے یاد بھی تو نہیں جانے کب سے
ہم اک ساتھ گھر سے نکلتے ہیں
اور شام کو
ایک ہی ساتھ گھر لوٹتے ھیں

دوئی بوئے خوش ہو دمک رہی ہو تم

دوئی

بوئے خوش ہو، دمک رہی ہو تم
رنگ ہو اور مہک رہی ہو تم
بوئے خوش! خود کو روبرو تو کرو
رنگ! تم مجھ سے گفتگو تو کرو

وقت ہے لمحہ لمحہ مہجوری
چاہے تم میری ہم نشیں بھی ہو

تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے

رمز

تم جب آؤ گی تو کھویا ہوا پاؤ گی مجھے
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے جس رمز کا مارا ہوا ذہن