ایک تاریخِ مقرر پہ تو ہر ماہ مِلے
جیسے دفتر میں کسی شخص کو تنخواہ مِلے
رنگ اکھڑ جائے تو ظاہر ہو پلستر کی نمی
قہقہہ کھود کے دیکھو تو تمہیں آہ ملے
جمع تھے رات مِرے گھر ترے ٹھکرائے ہوئے
میں تو اک عام سپاہی تھا حفاظت کے لیے
شاہزادی! یہ تِرا حق تھا، تجھے شاہ ملے
ایک اداسی کے جزیرے پہ ہوں اشکوں میں گِھرا
میں نکل جاؤں اگر خشک گزرگاہ ملے
اک ملاقات کے ٹلنے کی خبر ایسے لگی
جیسے مزدور کو ہڑتال کی افواہ ملے
گھر پہنچنے کی نہ جلدی، نہ تمنا ہے کوئی
جس نے ملنا ہو مجھے، آئے سرِ راہ ملے
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment