بس اک اسی پہ تو پوری طرح عیاں ہوں میں
وہ کہہ رہا ہے مجھے رائگاں، تو ہاں! ہوں میں
جسے دکھائی دوں، میری طرف اشارہ کرے
مجھے دکھائی نہیں دے رہا، کہاں ہوں میں
میں خود کو تجھ سے مٹاؤں گا احتیاط کے ساتھ
کسی نے پوچھا کہ تم کون ہو، تو بھول گیا
مجھے کسی نے بتایا تو تھا، فلاں ہوں میں
ہر ایک شخص کو اپنی پڑی ہوئی ہے یہاں
مِرا خیال ہے، اپنوں کے درمیاں ہوں میں
کسی زبان کی چپ کے معانی جاننے ہیں؟
مجھے بتاؤ، خموشی کا ترجماں ہوں میں
میں کس سے پوچھوں یہ رستہ درست ہے کہ غلط
جہاں سے کوئی گزرتا نہیں، وہاں ہوں میں
ادھر ادھر سے نمی کا رساؤ رہتا ہے
سڑک سے نیچے بنایا گیا مکاں ہوں میں
جبیں پہ ہجر کی تحریر درج کرنے میں
کسی پرانے قلم کی طرح رواں ہوں میں
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment