گزشتہ شب یوں لگا کہ اندر سے کٹ رہا ہوں
میں اس اذیت میں، ساٹھ پینسٹھ مِنٹ رہا ہوں
تُو مجھ کو رونے دے یار! شانے پہ ہاتھ مت رکھ
میں گیلے کاغذ کی طرح چُھونے سے پھٹ رہا ہوں
یقین کر! سخت سرد، بےجان آدمی تھا
وہ ہجر تھا، جس نے نم کیا اور بَل نکالے
میں جتنا سیدھا ہوں، اس کا بالکل الٹ رہا ہوں
سنا تھا، ہر ایک شے حرارت سے پھیلتی ہے
تجھ آگ کے پاس ہو کے میں کیوں سمٹ رہا ہوں
پڑوس میں پیڑ کٹ رہا ہے، میں کان ڈھانپے
درخت کے فائدوں پہ مضمون رَٹ رہا ہوں
اخیر بے کار شے تھا میں کارِ عشق سے قبل
سمجھ لے سوکھے ہوئے کنویں کا رہٹ رہا ہوں
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment