Thursday 18 January 2018

تری آنکھ کو آزمانا پڑا

تِری آنکھ کو آزمانا پڑا
مجھے قصۂ غم سنانا پڑا
غمِ زندگی تیری خاطر ہمیں
سرِ دار بھی مسکرانا پڑا
حوادث کی شب اتنی تاریک تھی
جوانی کو ساغر اٹھانا پڑا
مِرے دشمنِ جاں، ترے واسطے
کئی دوستوں کو بھلانا پڑا
زمانے کی رفتار کو دیکھ کر
قیامت پہ ایمان لانا پڑا
جنہیں دیکھنا بھی نہ چاہے نظر
انہیں سے تعلق بڑھانا پڑا
کئی سانپ تھے قیمتی اس قدر
انہیں آستیں میں چھپانا پڑا
ہواؤں کے تیور جو برہم ہوئے
چراغوں کو خود جھلملانا پڑا

محسن نقوی​

No comments:

Post a Comment