یہ جنگل ایک گہوارہ ہے خونی وارداتوں کا
یہ صحرا ایک میداں ہے جنونی وارداتوں کا
یہاں کا ذرہ ذرہ ظلم و سفاکی کا مظہر ہے
یہاں کا آسماں اک نیلگوں خاموش پتھر ہے
نیاموں سے نکل آتی ہیں جب خونریز شمشیریں
تھکے ماندے مسافر جب یہاں فریاد کرتے ہیں
غریب انسان جب یوں بیکسی کی موت مرتے ہیں
زمیں پر رقص جب کرتی ہیں لاشیں بے گناہوں کی
سنی جاتی ہیں جب مظلوم آہیں بے گناہوں کی
سکونِ بیکراں میں کوئی ہنگامہ نہیں اٹھتا
زمیں و آسماں میں کوئی ہنگامہ نہیں اٹھتا
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment