Sunday 14 January 2018

یہ جنگل ایک گہوارہ ہے خونی وارداتوں کا

یہ جنگل ایک گہوارہ ہے خونی وارداتوں کا
یہ صحرا ایک میداں ہے جنونی وارداتوں کا
یہاں کا ذرہ ذرہ ظلم و سفاکی کا مظہر ہے
یہاں کا آسماں اک نیلگوں خاموش پتھر ہے
نیاموں سے نکل آتی ہیں جب خونریز شمشیریں
برستی ہیں اندھیرے میں جب آتش ریز شمشیریں
تھکے ماندے مسافر جب یہاں فریاد کرتے ہیں
غریب انسان جب یوں بیکسی کی موت مرتے ہیں
زمیں پر رقص جب کرتی ہیں لاشیں بے گناہوں کی
سنی جاتی ہیں جب مظلوم آہیں بے گناہوں کی
سکونِ بیکراں میں کوئی ہنگامہ نہیں اٹھتا
زمیں و آسماں میں کوئی ہنگامہ نہیں اٹھتا

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment