ہے رنگِ ایجاد بھی دل میں اور زخم ایجاد بھی ہے
یعنی جاناں دل کا تقاضا آہ بھی ہے، فریاد بھی ہے
تیشۂ ناز نے میری انا کے خوں کی قبا پہنائی مجھے
میں جو ہوں پرویز ہوں اک، جو ظالم فرہاد بھی ہے
منحصر اس کی منشا پر ہے کس طور اس سے پیش آؤں
جون جدا تو رہنا ہو گا تجھ کو اپنے یاروں بیچ
یار ہی تو یاروں کا نہیں ہے یاروں کا استاد بھی ہے
ساری ردیفیں بھی حاضر ہیں پھر ساری ترکیبیں بھی
اور تمہیں کیا چاہئے یارو، حاصل میری داد بھی ہے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment