Wednesday 10 January 2018

راستے کی تھکن

راستے کی تھکن

آس پاس کوئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے
شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے
پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے

کتنے جتن کیے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے
چلتے چلتے ہار گیا میں پھر بھی راہ ادھوری ہے
گھائل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment