Thursday, 4 January 2018

میرا سورج

میرا سورج

مہتاب بدن والے تِرا لمس چرا لوں 
تو سُر ہے تو سنگیت ہے من میت ہے میرا
جگجیت ہے گلزار ہے تو پیار ہے میرا
سنگھار ہے بھگون ہے تو سرکار سجن اور 
دلدار ہے اوتار ہے میں داسی ہوں تیری
چرنوں میں پڑی تورے کرم تورے بھرم کی 
محتاج مِرا دین تو ایمان عقیدہ 
تجھ سے ہے تِری خاک بھروں مانگ میں اپنی
نظموں کی سلامی سے کروں تیرا سراپا 
تسخیر بنے میرے لیے رنگ جدا سا
سجدوں سے تجھے رام کروں تو ہے خدا سا
غزلوں کی دھنک دھوپ تِرے چہرے پہ چھڑکوں 
روتے ہوئے کھینچوں میں خطِ ہجر زمیں پر
ہنستے ہوئے تجھ کو میں مناؤں تجھے جھڑکوں 
البیلا ہے معصوم ہے نادان ہے پگلا
بچوں کی طرح ضدی ہے سمجھاؤں تجھے کیا 
آدابِ محبت کا نہیں تجھ کو پتا کیا؟
کیوں روز بچھڑنے کی اداکاری کرے ہے 
جب تجھ کو خبر ہے کہ تِری ذات مکمل 
ہو سکتی نہیں میرے بنا جاتا ہی کیوں ہے
سب دیکھ لیا تم نے منافق ہیں یہاں سب 
چاہا ہے مِری طرح کسی نے بھی تجھے کب 
میں کچھ بھی نہیں خاک اڑاتی ہوں تِرے بعد
جو نقش نہیں بنتے بناتی ہوں تِرے بعد 
گاؤں میں نومبر نے قدم رکھے ہیں آ جا 
پلکوں پہ مِری سرد چراغاں ہے تو نہ جا
مانگا ہے تجھے میں نے نمازوں میں ہمیشہ
تو عجز مِرا، صبر مِرا، میری دعا ہے 
میں خود سے تجھے کیسے مٹاؤں مجھے بتلا 
اے شخص تو ہاتھوں پہ نہیں دل پہ لکھا ہے


سعدیہ صفدر سعدی

No comments:

Post a Comment