Monday 8 January 2018

تم پہ بے اختیار مرتے ہیں

تم پہ بے اختیار مرتے ہیں
لوگ دیوانہ وار مرتے ہیں
پہلے میں مر رہا تھا تفریحاً
اب مِرے غمگسار مرتے ہیں
جن کو پڑ جائے موت کا چسکا
کس طرح بار بار مرتے ہیں
اتفاقاً جو ہنس کے مر جائیں
ہائے کیا با وقار مرتے ہیں
چھُپ کے مرنا بھی کوئی مرنا ہے
اہل دل آشکار مرتے ہیں
سوگ کس کس کا اب کرے کوئی
غیر مرتے ہیں، یار مرتے ہیں
دن کو بجھتے ہیں بے شمار کنول
شب کو جگنو ہزار مرتے ہیں
انکی آنکھوں پہ کس لگن سے عدؔم 
زاہد و بادہ خوار مرتے ہیں

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment