تم پہ بے اختیار مرتے ہیں
لوگ دیوانہ وار مرتے ہیں
پہلے میں مر رہا تھا تفریحاً
اب مِرے غمگسار مرتے ہیں
جن کو پڑ جائے موت کا چسکا
اتفاقاً جو ہنس کے مر جائیں
ہائے کیا با وقار مرتے ہیں
چھُپ کے مرنا بھی کوئی مرنا ہے
اہل دل آشکار مرتے ہیں
سوگ کس کس کا اب کرے کوئی
غیر مرتے ہیں، یار مرتے ہیں
دن کو بجھتے ہیں بے شمار کنول
شب کو جگنو ہزار مرتے ہیں
انکی آنکھوں پہ کس لگن سے عدؔم
زاہد و بادہ خوار مرتے ہیں
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment