Thursday, 4 January 2018

اب بھی کہنا ہے تو کہہ راج کماری مجھ کو

راج کماری

حضرتِ عشق درِ قیس تو دکھلائیں مجھے
ارمغانِ دلِ برباد لیے آئی ہوں
خواب کا شہر جلانا ہے اڑانی ہے راکھ
اس لیے آنکھ کو آباد لیے آئی ہوں
مجھ کو اس بستی سے بے دخل کیا لوگوں نے
جس کے در نہیں بنیاد لیے آئی ہوں
بھاگتے وقت میں اب تیری اسیری میں ہوں
خاک ملبوس پہنتی ہوں فقیری میں ہوں
تاجوری جب سے ملی کاسہ بدستوں کی مجھے
سب سمجھتے ہیں بڑی خوش ہوں امیری میں ہوں
جس کی آنکھوں میں چمکتے تھے سدا خواب مِرے
اب فقط رشتہ ہے اس شخص کی تصویر کے ساتھ
صورت دن جو دھڑکتا ہے مِرے پیش و پس
رقص کرتا ہے وہی رات کو زنجیر کے ساتھ
اشک جب سچے بہاؤں کبھی تو لگتا ہے
دل بھڑکتا ہے مِرا آنکھ سے خوں آتا ہے
دشت نے جب سے کیا تکیہ مِرے کمرے میں
پوچھنے حال مِرا خود ہی جنوں آتا ہے
تو زمانے کا طرفدار ہے جب تو گھر میرے
کون ہوں کیسی ہوں میں پوچھنے کیوں آتا ہے
جانتی ہوں کہ توازن نہیں آنکھوں میں تِری
جانتی ہوں کہ تجھے ہجر فسوں آتا ہے
میری تنہائِی کی حد سرحدِ افلاک تلک
میرا دکھ پھر بھی بھٹکتا ہے ابھی خاک تلک
کوئی تمثیل بنے گی نہ ہی کوئی تصویر
میری مٹی نے سفر کرنا ہے کب چاک تلک
وہ سمجھتا ہے مِری شان ہے شہزادی سی
وہ سمجھتا ہے مِرا کوئی محل تخت بھی ہے
وہ سمجھتا ہے مِرے پاس سواری ہے کوئی
وہ سمجھتا ہے سفر میرا نہیں رخت بھی ہے
زندگی کھینچتی ہے رنگ مِرے چہرے کا
سانس کی روزی بھی ملتی ہے ادھاری مجھ کو
آئینہ ہنستا ہے بے چہرگی پر دیکھ مری
اور کہتا ہے تو ہر روز ہی پیاری مجھ کو
میری خاطر نہ اڑا خاک تو معصوم سے شخص
ڈھونڈتا ہی رہے گا عمر تو ساری مجھ کو
بال بکھرے ہیں مِرے خون میں لت پت ہے وجود
اب بھی کہنا ہے تو کہہ راج کماری، مجھ کو

سعدیہ صفدر سعدی

No comments:

Post a Comment