زندگی
شام کا سورج خود اپنے ہی لہو کی دھاریوں میں ڈوب کر
دیکھتا ہے بجھتی آنکھوں سے سوادِ شہر کے سونے کھنڈر
اس کو لے جائے گی پل بھر میں فنا کے گھاٹ پر
رات کے بحرِ سیہ کی موج ہے گرمِ سفر
دیکھتی آنکھوں افق کے سرد ساحل پر اندھیرا چھائے گا
سرسراتے ریشمی سایوں سے بھر جائے گی ہر اک راہگزر
نازنیں آنکھوں کی صورت نمٹائیں گے خیالوں کے نگر
تیز سانسوں کی مہک اڑاتی پھرے گی رات پھر
تُو بھی خوش ہو، میرے دل! نوحہ گرِ شام و سحر
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment