Wednesday, 3 January 2018

روز خوابوں میں نئے رنگ بھرا کرتا تھا

روز خوابوں میں نئے رنگ بھرا کرتا تھا 
کون تھا جو مِری آنکھوں میں رہا کرتا تھا 
انگلیاں کاٹ کے وہ اپنے لہو سے اکثر 
پھول پتوں پہ مِرا نام لکھا کرتا تھا 
کیسا قاتل تھا جو ہاتھوں میں لیے تھا خنجر 
چپکے چپکے مِرے جینے کی دعا کرتا تھا 
ہائے قسمت کہ یہی چھوڑ کے جانے والا 
عمر بھر ساتھ نباہیں گے کہا کرتا تھا 
پھول سا جسم سلگتے ہوئے صندل کی طرح 
دل کے مندر میں سرِ شام جلا کرتا تھا 
وہ جو اک لمحہ کسی یاد میں کٹتا تھا نظیرؔ 
دل کے جلتے ہوئے شعلوں کو ہوا کرتا تھا  

نظیر باقری

No comments:

Post a Comment