کوئی زیر و زبر نہیں بچتا
یہ تو طے ہے کہ شر نہیں بچتا
جیسے لوگوں میں آ گیا ہوں میں
اب تو رختِ سفر نہیں بچتا
کشمکش جان لے کے چھوڑے گی
دیکھتا ہوں عجیب سا سپنا
دیکھتا ہوں نگر نہیں بچتا
کیا کرو گے یہ رختِ جاں فرحت
چھوڑ دو نا اگر نہیں بچتا
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment