Saturday 20 January 2018

جب تلک خوف ہوا رہتا ہے

جب تلک خوفِ ہوا رہتا ہے 
دل اندھیروں میں پڑا رہتا ہے
عشق کی خاص کرامت یہ ہے
جو نہیں رہتا، سدا رہتا ہے
تم وہی دریا ہو نا! جو اکثر 
مِرے کوزے میں بھرا رہتا ہے
وقت ہے دیکھ لو جی بھر کے مجھے 
کیا خبر بعد میں کیا رہتا ہے
اس کی آنکھوں سے دغا مت کرنا 
اس کی آنکھوں میں خدا رہتا ہے
زندگی بیچ رہی ہے مِرے سانس 
اور ابھی کام بڑا رہتا ہے
اشک وہ ہے جو بہائے بس دل 
زخم وہ ہے جو ہرا رہتا ہے
میں اسے دیکھتی ہوں اور وہ شخص 
خود میں تصویر بنا رہتا یے
زندگی کٹ رہی ہے یوں سعدی 
جس طرح بچہ ڈرا رہتا ہے

سعدیہ صفدر سعدی

No comments:

Post a Comment