Thursday 25 January 2018

اسے اب کے وفاؤں سے گزر جانے کی جلدی تھی

اسے اب کے وفاؤں سے گزر جانے کی جلدی تھی 
مگر اس بار مجھ کو اپنے گھر جانے کی جلدی تھی 
ارادہ تھا کہ میں کچھ دیر طوفاں کا مزہ لیتا 
مگر بے چارے دریا کو اتر جانے کی جلدی تھی 
میں اپنی مٹھیوں میں قید کر لیتا زمینوں کو 
مگر میرے قبیلے کو بکھر جانے کی جلدی تھی 
میں آخر کون سا موسم تمہارے نام کر دیتا 
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی 
وہ شاخوں سے جدا ہوتے ہوئے پتوں پہ ہنستے تھے 
بڑے زندہ نظر تھے جن کو مر جانے کی جلدی تھی 
میں ثابت کس طرح کرتا کہ ہر آئینہ جھوٹا ہے 
کئی کم ظرف چہروں کو اتر جانے کی جلدی تھی

راحت اندوری

No comments:

Post a Comment