Saturday, 20 January 2018

میں تو سودا لئے پھرا سر میں

میں تو سودا لیے پھرا سَر میں
خاک اڑتی رہی مِرے گھر میں
نہ ہوا تُو مجھے نصیب تو کیا
میں ہی اپنے نہ تھا مقدر میں
لے کے سمتوں کی ایک بے سمتی
گُم ہوا ہوں میں اپنے پیکر میں
ڈوبئے اس نگہ کے ساتھ کہاں
دھول ہی دھول ہے سمندر میں
چاہئے کچھ ہنر کو اس کا خیال
ہے جو بے منظری سی منظر میں
مانگ لے کوئی یاد پتھر سے
وقت پتھرا گیا ہے پتھر میں
کیسے پہنچےغنیم تک یہ خبر
گھِر گیا ہوں میں اپنے لشکرمیں
ایک دیوار گِر پڑی دل پر
ایک دیوار کھنچ گئی گھر میں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment