Wednesday 3 January 2018

یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا سارے منظر بھول گئے

یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا، سارے منظر بھول گئے
اس کی گلیوں سے جب لوٹے، اپنا بھی گھر بھول گئے
خوب گئے پردیس کہ اپنے دیوار و در بھول گئے
شیش محل نے ایسا گھیرا، مٹی کے گھر بھول گئے
تجھ کو بھی جب اپنی قسمیں، اپنے وعدے یاد نہیں
ہم بھی اپنے خواب تری آنکھوں میں رکھ کر بھول گئے
مجھ کو جنہوں نے قتل کیا ہے، کوئی انہیں بتلائے نظیر
میری لاش کے پہلو میں وہ اپنا خنجر بھول گئے

نظیر باقری

No comments:

Post a Comment