یاد نہیں کیا کیا دیکھا تھا، سارے منظر بھول گئے
اس کی گلیوں سے جب لوٹے، اپنا بھی گھر بھول گئے
خوب گئے پردیس کہ اپنے دیوار و در بھول گئے
شیش محل نے ایسا گھیرا، مٹی کے گھر بھول گئے
تجھ کو بھی جب اپنی قسمیں، اپنے وعدے یاد نہیں
مجھ کو جنہوں نے قتل کیا ہے، کوئی انہیں بتلائے نظیر
میری لاش کے پہلو میں وہ اپنا خنجر بھول گئے
نظیر باقری
No comments:
Post a Comment