بے دام ہم بکے سرِ بازار عشق میں
رسوا ہوئے جنوں کے خریدار عشق میں
زنجیریں بن گئیں میری آزادیاں حضور
زندانِ شب ہے کوچۂ دلدار عشق میں
درپیش پھر سے عشق کو صحرا کا ہے سفر
خونِ جگر سے لکھیں گے مقتل کی داستاں
روشن ضمیر و صاحبِ اسرار عشق میں
خورشید و ماہتاب سے در کی تلاش میں
دشتِ سفر میں یار ہوئے خوار عشق میں
دیتے ہیں بت کدوں میں اذانِ لا الہ کی ہم
رقصاں ہیں ہُو کی تال پہ سرشار عشق میں
جلتے ہوئے فراق سے روشن ہوئے چراغ
آتش فشاں سے لوگ ہیں بیدار عشق میں
پوشاکِ فقر اوڑھے دو عالم شناس لوگ
ٹھہرے ہیں سوئے دار سزاوار عشق میں
درویش ہم سخن وہ قلندر ہیں وقت کے
لے کر چلے جو پرچمِ احرار عشق میں
فاروق درویش
No comments:
Post a Comment