آگے اسپِ خونی چادر اور خونی پرچم نکلے
جیسے نکلا اپنا جنازہ ایسے جنازے کم نکلے
دور اپنی خوش ترتیبی کا رات بہت ہی یاد آیا
اب جو کتابِ شوق نکالی سارے ورق برہم نکلے
حیف درازی اس قصے کی، اس قصے کو ختم کرو
میرے قاتل، میرے مسیحا، میری طرح لاثانی ہیں
ہاتھوں میں تو خنجر چمکیں، جیبوں سےمرہم نکلے
جونؔ شہادت زادہ ہوں میں اور خونی دل نکلا ہوں
میرا جلوس اس کے کوچے سے کیسے بے ماتم نکلے
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment