Monday 22 January 2018

دل کے سارے غم و الم نکلے

دل کے سارے غم و الم نکلے
اب کہ پتھر تلک صنم نکلے
ان کی آنکھوں نے میزبانی کی
ہم بھی محفل میں محترم نکلے
کیتلی پر نگاہ ان کی ہو
کیسے چائے کا پھر نہ دم نکلے
ان کے ہاتھوں سے پی کے ایسا لگا
دل سے عمروں کے جیسے غم نکلے
بے یقینی سی بے یقینی ہے
منہ سے ہر بات پہ قسم نکلے
اک عمر تک چلا تو پہنچا ہوں
اور گننے میں دو قدم نکلے
آج تعبیر کوئی ایسے ہوا
خواب جتنے تھے سارے کم نکلے
مٹ گئے سارے پھر گلے شکوے
پی کے چائے جو ان کی ہم نکلے
کس کا دل تھا کہ اٹھتا پہلو سے
سمجھو ابرک کہ سر قلم نکلے

اتباف ابرک

No comments:

Post a Comment