Saturday, 20 January 2018

ہنس رہی ہوں خواب سارے میں ادھورے چھوڑ کر

تتلیاں، جگنو، شجر، خوشبو، پرندے چھوڑ کر
ہنس رہی ہوں خواب سارے میں ادھورے چھوڑ کر
جس کی آنکھوں نے لکھا تھا آخری نوحہ مرا
وہ گیا بھی تو گیا ہے سب سے پہلے چھوڑ کر
ڈھونڈتی پھرتی ہوں اپنے آپ کو کچھ اس طرح
آ گئی ہوں جس طرح میں خود کو پیچھے چھوڑ کر
کاٹنے ہیں رت جگے پڑھتے ہوئے دیوانِ میر
جاگنا ہے عمر بھر نیندیں سرہانے چھوڑ کر
رہ گئیں ویران کچی سی سڑک پر ہچکیاں 
چل پڑی گاڑی کسی کے ہاتھ ہلتے چھوڑ کر
دیکھ لے! میں نے مکمل کر لیے ہیں آخرش
تُو گیا تھا مجھ میں اپنے نقش آدھے چھوڑ کر

سعدیہ صفدر سعدی

No comments:

Post a Comment