Wednesday 17 January 2018

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

نوحہ

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی 
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی 
ڈرتا ہوں کہیں خشک نہ ہو جائے سمندر 
راکھ اپنی کبھی آپ بہاتا نہیں کوئی 
اک بار تو خود موت بھی گھبرا گئی ہو گی 
یوں موت کو سینے سے لگاتا نہیں کوئی 
مانا کہ اجالوں نے تمہیں داغ دیئے تھے 
بے رات ڈھلے شمع بجھاتا نہیں کوئی 
ساقی سے گلا تھا تمہیں میخانے سے شکوہ 
اب زہر سے بھی پیاس بجھاتا نہیں کوئی 
ہر صبح ہلا دیتا تھا زنجیر زمانہ 
کیوں آج دِوانے کو جگاتا نہیں کوئی 
ارتھی تو اٹھا لیتے ہیں سب اشک بہا کے 
نازِ دلِ بے تاب اٹھاتا نہیں کوئی

کیفی اعظمی

No comments:

Post a Comment