نوحہ
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
ڈرتا ہوں کہیں خشک نہ ہو جائے سمندر
راکھ اپنی کبھی آپ بہاتا نہیں کوئی
اک بار تو خود موت بھی گھبرا گئی ہو گی
مانا کہ اجالوں نے تمہیں داغ دیئے تھے
بے رات ڈھلے شمع بجھاتا نہیں کوئی
ساقی سے گلا تھا تمہیں میخانے سے شکوہ
اب زہر سے بھی پیاس بجھاتا نہیں کوئی
ہر صبح ہلا دیتا تھا زنجیر زمانہ
کیوں آج دِوانے کو جگاتا نہیں کوئی
ارتھی تو اٹھا لیتے ہیں سب اشک بہا کے
نازِ دلِ بے تاب اٹھاتا نہیں کوئی
کیفی اعظمی
No comments:
Post a Comment