عذابِ ہجر نہ میں موسمِ ملال میں ہوں
رہِ عروج میں ہوں، ہیبتِ زوال میں ہوں
میں اپنی ذات کا مقصد سمجھ نہیں پایا
جواب ڈھونڈ رہا ہوں، کسی سوال میں ہوں
سنور رہی ہے سرِ چاک میری خاک ابھی
خطائیں کرنا مِری عادتوں میں شامل ہے
یہی تو حسنِ بشر ہے، اسی جمال میں ہوں
قضا و قدر،۔ حسابِ لحد،۔ سزا و جزا
ازل کے روز سے اک عہدِ پائمال میں ہوں
یہ ٹھوکریں ہی بنائیں گی سنگِ میل مجھے
ہوں سنگِ راہ ابھی، آسماں کی چال میں ہوں
تھرکنے اور تڑپنے میں فرق ہوتا ہے
میں محوِ رقص نہیں، مستقل دھمال میں ہوں
بھریں گے زخم تو اگلے سفر پہ نکلوں گا
یہ زندگی تو امر، راہِ اندمال میں ہوں
امر روحانی
No comments:
Post a Comment