لبوں پہ کیا وہ مرے دل میں شہد گھولتا ہے
جو جادو حسن کا سر چڑھ کے میرے بولتا ہے
سپاہِ عشق کے لشکر سے ہے وفا میری
چلا کے تیر وہ نیزے پہ سر کو تولتا ہے
جو پیاسا دشتِ محبت میں جان ہارا تھا
میں اس کو دل کے خرابے میں ڈھونڈنے نکلا
وہ دل میں چھپ کے مِرے دل کے بھید کھولتا ہے
وہ حسن ساز کی تخلیقِ جاوداں ٹھہرا
میں خاک ٹھہرا مجھے خاک ہی میں رولتا ہے
سکھایا کس نے یہ شعلوں سے کھیلنا مجھ کو
مِرے خدا! مِرے اندر یہ کون بولتا ہے
میں اپنی آگ میں کندن بنا تو ڈرنے لگا
زیاں کے خوف سے درویش دل تو ڈولتا ہے
میں اپنی آگ میں کندن بنا تو ڈرنے لگا
زیاں کے خوف سے درویش منوا ڈولتا ہے
زیاں کے خوف سے درویش منوا ڈولتا ہے
فاروق درویش
No comments:
Post a Comment