Saturday 20 January 2018

لبوں پہ کیا وہ مرے دل میں شہد گھولتا ہے

لبوں پہ کیا وہ مرے دل میں شہد گھولتا ہے
جو جادو حسن کا سر چڑھ کے میرے بولتا ہے
سپاہِ عشق کے لشکر سے ہے وفا میری
چلا کے تیر وہ نیزے پہ سر کو تولتا ہے
جو پیاسا دشتِ محبت میں جان ہارا تھا
فلک کی اوڑھ سے رازِ شکست کھولتا ہے
میں اس کو دل کے خرابے میں ڈھونڈنے نکلا
وہ دل میں چھپ کے مِرے دل کے بھید کھولتا ہے
وہ حسن ساز کی تخلیقِ جاوداں ٹھہرا
میں خاک ٹھہرا مجھے خاک ہی میں رولتا ہے
سکھایا کس نے یہ شعلوں سے کھیلنا مجھ کو
مِرے خدا! مِرے اندر یہ کون بولتا ہے
میں اپنی آگ میں کندن بنا تو ڈرنے لگا
زیاں کے خوف سے درویش دل تو ڈولتا  ہے
میں اپنی آگ میں کندن بنا تو ڈرنے لگا
زیاں کے خوف سے درویش منوا ڈولتا ہے

فاروق درویش

No comments:

Post a Comment