Tuesday 16 January 2018

خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے

 خود اپنی سوچ کے پنچھی نہ اپنے بس میں رہے 

کھلی فضا کی تمنا تھی، اور قفس میں رہے 

بچھڑ کے مجھ سے عذاب ان پہ بھی بہت گزرے 

وہ مطمئن نہ کسی پَل کسی برس میں رہے 

میں ایک عمر سے ان کو تلاش کرتا ہوں 

کچھ ایسے لمحے تھے جو اپنی دسترس میں رہے 

لہو کا ذائقہ کڑوا سا لگ رہا ہے مجھے 

میں چاہتا ہوں کہ کچھ تو مٹھاس رس میں رہے 

کسی کا قرب مِرے دل کی روشنی ٹھہرے 

کسی کے آنے سے خوشبو مِرے نفس میں رہے 

سنا ہے اس کی گزرتی ہے تازہ پھولوں میں 

زمانؔ جس کے لیے شہرِ خار و خس میں رہے 


زمان کنجاہی

No comments:

Post a Comment