زمیں سے دور کہاں آسمان لگتا ہے
وہ ساتھ ہو تو خدا مہربان لگتا ہے
یہ انتظار بھی کتنی بڑی اذیت ہے
جو خوش کلام تھا اب بے زبان لگتا ہے
جو کامیاب رہا کارزارِ ہستی میں
عجب مقام پہ آیا تعلقِ خاطر
وہ بدگماں نہیں پر بدگمان لگتا ہے
اجاڑ دل کو مِرے دیکھ کر وہ کہتے ہیں
کرائے کے لیے خالی مکان لگتا ہے
جو روک پائے نہ بارش نہ دھوپ کی کرنیں
وہ عرش پھر بھی ہمیں سائبان لگتا ہے
کسی کے ماتھے پہ عکسِ سجود کا تارا
زمانے والوں کو بس اک نشان لگتا ہے
وفورِ عشق نے ایسا نشہ دیا ہے مجھے
کہ خار زارِ جہاں، گلستان لگتا ہے
جواب یوں بھی سب آسان ہو گئے ہیں امر
سوال کرنا مجھے امتحان لگتا ہے
امر روحانی
No comments:
Post a Comment