دوستی دشمنی بہانے ہیں
کچھ تعلق ہیں جو نبھانے ہیں
آئینے کو یہ ہم نے بتلایا
ہم فلانے نہیں، فلانے ہیں
کاٹ آئے ہیں گردشِ دوراں
بھانپ لیتے ہیں تنگدستی کو
میرے بچے بڑے سیانے ہیں
لوگ ہیں مستقل حراست میں
شہر کے شہر جیل خانے ہیں
عدل اندھا ہے، عقل بہری ہے
جھوٹ بھی سچ کے شاخسانے ہیں
اس زیاں گر سے سودِ زخمِ زیاں
کچھ کمائے ہیں، کچھ کمانے ہیں
عقل بھی عشق بن کے جاتی ہے
یہ فقیروں کے آستانے ہیں
از وعیدِ قضا و قدر امر
تیرے اشعار تازیانے ہیں
امر روحانی
No comments:
Post a Comment